آج کی تاریخ

ABBAS

شدید مسائل میں گھرا مخدوم رشید

انتظامی اعتبار سے جنوبی پنجاب کے اہم ترین شہر ملتان سے صرف 22 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع تاریخی قصبہ مخدوم رشید مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ کہیں کسان بلبلاتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں مریض۔ کہیں مسائل کے بھنور میں دھنسے شہری نوحہ کناں ہیں تو کہیں مظلوم انصاف کے متلاشی بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دینگے۔ قصہ مختصر کہ عوام کی فلاح و بہبود اداروں کا ایجنڈا ہی نہیں لگتا۔ ہر محکمہ لوگوں کیلئے سہولت یا کوئی آسانی پیدا کرنے کے بجائے زحمت بنا ہوا ہے۔ درپیش مسائل پر نظر ڈالی جائے تو اکثریتی مسائل کو سرکاری محکموں کی مجرمانہ نااہلی و غفلت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہر محکمے کے بجٹ کا بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں پر صرف ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب نے مٹھائی اور نذرانہ وصولی کے بغیر کام نہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں یہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ کام چور، کرپٹ عناصر کے ہوتے ہوئے عوامی مسائل کم نہیں بلکہ بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔
مخدوم رشید و گردونواح میں رورل ہیلتھ سنٹر (آر ایچ سی) مخدوم رشید سمیت 13 بنیادی مراکز صحت (بی ایچ یوز) بھی ہیں مگر صحت کی سہولیات برائے نام بھی نہیں جہاں جانیوالے مریضوں سے عملہ ناصرف انتہائی ہتک آمیز رویہ اپناتا ہے بلکہ معمولی مرہم پٹی سمیت ہر دوائی باہر سے ہی خریدنی پڑتی ہے۔ رورل ہیلتھ سنٹر کو قائم ہوئے 45 سال گزر چکے ہیں مگر بدقسمتی سے آج بھی اپ گریڈیشن کا منتظر ہے حالانکہ مخدوم رشید کے مجموعی طور پر 14 ہیلتھ سنٹرز کے سٹرکچر میں تبدیلیوں کے ذریعے Revamping مطلب کہ بہتری کیلئے کروڑوں روپے خرچ ہو تے رہے ہیں۔ بلڈنگز کا پرانا ملبہ اونے پونے داموں ٹھیکیداروں کے ذریعے فروخت کیا جا تا رہا ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ناقص میٹریل استعمال کرکے بھی سرکاری فنڈز پر کرپشن کی بے رحم چھری چلائی جاتی ہے۔ کرپٹ عناصر ہیر پھیر کیلئے کرپشن کے نت نئے طریقے ایجاد کر ہی لیتے ہیں۔ یوں محکمہ بلڈنگز اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داروں کی ملی بھگت سے حکومتی خزانے کو بڑی بے دردی سے نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے۔ محکمہ ہیلتھ ملازمین کی کرپشن عروج پر ہے۔ انسولین سمیت اہم ادویات اور دیگر سامان چوری کرا لیا جاتا ہے۔ ہیلتھ کیئر کمیشن کی ناقص کارکردگی اور نااہلی کے باعث مخدوم رشید و گردونواح میں اتائیت کا راج برقرار ہے۔ اتائی جگہ جگہ “موت گھر” کھول کر انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز و دیگر محکمہ صحت افسران اتائیوں کیلئے سہولت کار کا کردار نبھا رہے ہیں۔منتھلی دینے پر انہیں کھلے عام انسانی جانوں سے کھیلنے کی چھوٹ دے رکھی ہے۔
ہر دور میں کسانوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے مگر موجودہ دور حکومت میں کسان سب سے زیادہ گھمبیر مسائل کا شکار ہیں۔ سرکاری سطح پر 2 ہزار روپے سے اڑھائی ہزار روپے فی من تک گندم کی خریدی گئی جبکہ اس سے قبل 3900 روپے ریٹ مقرر تھا جبکہ گندم کی بجائی کیلئے گندم کا بیج 6500 روپے فی من فروخت کیا جاتا رہا۔ زرعی مداخل کی قیمتوں میں کمی کی بجائے بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ کسان کارڈ پر 10فیصد کٹوتی کی جا رہی ہے۔ ڈیوائس پوائنٹ پر ٹریڈرز کھاد اور بیج کا زائد ریٹ وصول کر رہے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ٹیل کے کاشتکار پانی کی بوند بوند کو ترستے رہتے ہیں جس کی وجہ سے غریبوں کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ نہری پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کو غریب کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ذرائع کے مطابق محکمہ انہار حکام کے ملازمین نذرانہ دینے پر پانی چوری کرانے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں جبکہ موگہ جات کے سائز کھلے کرانے اور ٹُکیاں نل لگانے کے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں جو غریب ٹیل کے کاشتکاروں کی حق تلفی اور معاشی قتل کے مترادف ہے۔
محکمہ ماحولیات کی کارکردگی کا اندازہ تو ماحولیاتی آلودگی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ محکمانہ مجرمانہ غفلت کے باعث سموگ سے ماحول آلودہ ہو کر انسانی جانوں کے ضیاع کا موجب بن رہا ہے۔ اسقدر ماحول آلودہ ہو چکا ہے کہ سانس لینا محال ہے جبکہ افسران و ملازمین گھروں یا دفاتر تک محدود رہ کر مفت تنخواہوں کے ساتھ ساتھ مخدوم رشید و نواح میں واقع چھوٹے بڑے یونٹس ملاکر کم و بیش 200 سے زائد زہریلا دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں اور بھٹہ خشت مالکان سے منتھلی وصول کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ روز بروز ماحولیاتی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
ماڈل تھانہ مخدوم رشید پولیس کی کارکردگی پر بات کی جائے تو نئے مہتمم کی تعیناتی کے بعد علاقہ میں کرائم کی شرح کافی حد تک کم ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ٹھیکری پہرے کا نظام متعارف کروایا ہے جس کے بعد علاقہ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے جس سے اہل علاقہ بہت خوش ہیں۔ مزید خوش آئند امر یہ ہے کہ ٹاؤٹ نئے تھانیدار کے آنے پر تھانہ کے چکر لگانے سے کترانے لگے ہیں کیونکہ نئے صاحب مٹھائی یا خرچہ پانی لیتے ہیں نہ کسی کو لینے دیتے ہیں جبکہ ماضی میں ماڈل تھانہ مخدوم رشید پولیس کی کارکردگی اسقدر شاندار اور مثالی” تھی کہ کوئی کام نذرانہ دئیے بغیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ غریب کیلئے انصاف کا حصول تقریباََ ناممکن ہی تھا۔ انگریزی محاورہ ’’مائٹ از رائٹ‘‘ ہی شاید صورتحال کو درست انداز میں بیان کر سکے۔ پرکشش آفر لاؤ یا تگڑی سفارش لاؤ ورنہ دھکے کھاؤ کے تحت ’’انصاف‘‘ فراہم کیا جا رہا تھا۔ چور، ڈکیٹ، منشیات فروش گینگز گرفتار ہوتے جنہیں بھاری رشوت کے عوض معمولی دفعات لگا کر ریلیف دیا جاتا۔ چند جرائم پیشہ افراد کو کمزور دفعات لگا کرجوڈیشل کیا جاتا۔ مختلف مقدمات پر ملزموں کے ساتھ ساتھ دیگر عزیزو اقارب اور دوستوں کو بھی شامل تفتیش کرکے بھاری مال پانی وصول کر لیا جاتا ہے جبکہ مال مسروقہ برآمد ہونے پر متاثرین کو ایک پائی تک نہیں دی جاتی۔
ضلعی و تحصیل انتظامیہ اور سول ڈیفنس کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہونے کے باعث مخدوم رشید کے علاقہ میں غیر قانونی آئل ایجنسیوں، آئل یونٹس، منی پٹرول پمپس کی بھرمار ہو چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق علاقہ میں مختلف جگہوں پر چھوٹے بڑے پیمانے پر مجموعی طور پر 332 غیر قانونی آئل و گیس ایجنسیاں و یونٹ قائم ہیں۔بغیر حفاظتی اقدامات جگہ جگہ ناقص آئل کا غیرقانونی کاروبار ہو رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق موضع بازداروالا پر فیکٹری گودام میں آصف سیال نامی شخص، اڈا 9 کسی خانپور مڑل کے نزدیک نہر کنارے واقع فیکٹری گودام میں کاشف سیال نامی شخص، 19 کسی وہاڑی روڈ پر راشد سیال نامی شخص، بستی عاربی وہاڑی روڈ پر طاہر سنار نامی شخص سمیت درجنوں قانون شکن عناصر کالے موبل آئل کو کیمیکلز کے ذریعے ریفائن، سالونٹ کیمیکل کی ایرانی تیل میں مکسنگ سمیت نجانے کون کونسے دھندوں میں ملوث ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایرانی تیل کے بڑے سمگلر شبیر عرف شبو ہمبڑ کی پشت پناہی پرعباس ارائیں، فدا حسین ڈمرہ سکنہ موضع نائی والا، اعجاز چنڑ بھی پمپس کی آڑ میں ایرانی تیل کی مکسنگ کررہے ہیں جبکہ عبدالعزیز نامی بلیکیے کے 3 بیٹے جعلی موبل آئل، پٹرول، ڈیزل کا وسیع پیمانہ پر دھندہ کر رہے ہیں۔ آئل مافیا اسقدر با اثر ہے کہ متعلقہ محکمے ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قانون شکن ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ اپنے سہولت کاروں کے ذریعے اوپر تک بھاری نذرانہ پہنچاتے ہیں۔ تبھی انہیں کھل کر کھیلنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ متعلقہ محکموں کی مجرمانہ عدم توجہی یامبینہ طور پر سازباز ہونے کے باعث آج تک کرپٹ عناصر کو نکیل نہیں ڈالی جا سکی جس پر سماجی و عوامی حلقوں نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے سوال پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ ڈیل پر ڈھیل کا الزام من گھڑت ہے تو اعلیٰ حکام خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں؟۔ہوشرباء مسائل کی دلدل میں دھنسے عوام مایوسی کا شکار ہوکر کسی مسیحا کے منتظر ہیں جو کرپٹ اور کام چور عناصر کو نشان عبرت بناکر انہیں کرپشن اور لاقانونیت سے نجات دلائے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں