ملتان (سٹاف رپورٹر) محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ پنجاب میں یونین کونسلز کی سطح پر موڈیفکیشن فیسوں کی مد میں ہر ماہ صوبہ بھر کی 3454 یونین کونسلوں میں 20 سے 22 کروڑ روپے منظم خورد برد کا حیران کن انکشاف ہوا ہے جس کی طرف کسی بھی سرکاری تحقیقاتی ادارے کی سرےسے کوئی توجہ ہی نہیں اور یہ باریک کام گزشتہ کئی سال سے
انتہائی منظم انداز میں جاری ہے۔ یہ خطیر رقم سرکاری خزانے میں تو جمع نہیں ہوتی البتہ بندر بانٹ کی نذر ہو جاتی ہے جبکہ سرکاری خزانے میں صرف نادرا کے کھاتے میں 75 روپے فی کیس کے حساب سے تو رقم جمع ہو تی ہے اور باقی 425 روپے موڈیفکیشن فیس فی کیس بلدیاتی اداروں کے افسران اور اہل کاروں کے پاس ہی رہ جا تی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کی صرف اس ایک مد میں سالہا سال سے یہ اتنی بڑی کرپشن ہو رہی ہے جس پر کسی کی نظر ہی نہیں پڑتی۔ تفصیلات کے مطابق یونین کونسل کے ریکارڈ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی جسے موڈیفکیشن کا نام دیا جاتا ہے، کے لیے لوکل گورنمنٹ کی طرف سے 500 روپیہ فیس مقرر کی گئی ہے جبکہ اس حوالے سے یونین کونسلز کو نادرا کی سہولت بھی حاصل ہے اور کسی بھی نام کی تبدیلی، کسی ریکارڈ کی تبدیلی کے لیے نادرا کی فیس تو 75 روپے فی کیس ہے مگر لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ فیس 500 روپیہ فی کیس مقرر کر رکھی ہے اور نادرا کو 75 روپے دے کر باقی 425 روپے اصولی طور پر لوکل گورنمنٹ کے سرکاری کھاتوں میں جمع ہو کر ریکارڈ پر لائے جانے چاہئیں مگر اس کی 10 فیصد رقم بھی لوکل گورنمنٹ کے کھاتوں میں نہیں جاتی اور سب اہلکاروں اور افسران کے مابین بندر بانٹ کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ امر بھی انتہائی توجہ طلب ہے یہ پٹواریوں کی طرح محکمہ بلدیات کے انتہائی بنیادی یونٹ یعنی یونین کونسل کے سیکرٹری حضرات نے بھی اس کام کے لیے سینکڑوں یونین کونسلوں میں نادراکا حساس ترین ریکارڈ پرائیویٹ ملازم رکھ کر انہیں کوڈ دے کا سپرد کر رکھا ہے اور خود سیکرٹری یونین کونسلز کی اکثریت دفتر کم ہی آتی ہے۔ روزنامہ قوم نے ملتان ڈویژن سے جو معلومات لیں ان کے مطابق ملتان ڈویژن میں یونین کونسلز اور ویلیج کونسل کی تعداد 534 ہے اور ہر یونین کونسل یا ویلیج کونسل کی سطح پر ہر مہینے کم سے کم 100 اور زیادہ سے زیادہ 200 درخواستیں ایسی آتی ہیں جو لوگوں کو یونین کونسل کی سطح پر اپنے ریکارڈ میں تبدیلی یعنی موڈیفکیشن کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کی فیس 500 روپیہ وصول کی جاتی ہے جو کہ ہر یونین کونسل میں بورڈ پر لکھی گئی ہے۔ ہر ماہ کروڑوں روپے کی اس خورد برد کا انکشاف ملتان شہر کی یونین کونسل نمبر 39 کا ایک مہینے کاریکارڈ سامنے آنے پر ہوا جس میں صرف گزشتہ ماہ یعنی ماہ ستمبر میں موڈیفکیشن کے 259 کیسز آئے اور نادرا سے لی گئی سہولت کی روشنی میں 75 روپے فی کیس کے حساب سے فیس نادرا کے ریکارڈ میں تو جمع ہو گئی مگر بقایا 425 روپے کس مد میں جمع ہوئے اس کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں اور جب مزید تحقیقات کی گئی اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی گئی تو پتہ چلا کہ صرف ایک مہینے میں صرف اس ایک مد اور صرف ایک ہی یونین کونسل میں ایک لاکھ روپے کا گھپلا ہوا ہے اور اگر اس شرح کو صوبہ بھر کی 3454 یونین کونسل پر لاگو کیا جائے تو یہ رقم 34 کروڑ روپے ماہوار بنتی ہے مگر کچھ یونین کونسلر کمزور علاقوں میں بھی ہیں جہاں موڈیفکیشن کے اتنے زیادہ کیسز نہیں آتے جبکہ لاہور، فیصل آباد، گجرات، گوجرانوالہ اور ملتان میں تو یہ تعداد ہر مہینے روزنامہ قوم کو ملنے والی معلومات سے کہیں زیادہ ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ جیسے محکمے کی اس طرح کی کئی مدات ہیں جن میں سے فی الحال صرف ایک مد بارے معلومات حاصل کی گئی ہیں جو کہ انتہائی بنیادی نوعیت کی ہے اور 500 روپیہ کوئی اتنی قیمت بھی نہیں کہ کسی کو دیتے ہوئے تکلیف ہو یا اس میں سے کسی قسم کی کرپشن پر کسی کو درخواست دینی پڑے مگر جب یہ رقم صوبہ بھر کے حساب سے جمع ہو تو یہ کروڑوں روپیہ بن جاتا ہے اور اتنی بڑی رقم کوئی ایک سیکرٹری یونین کونسل یا ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اکیلا ہضم نہیں کر سکتا۔ یہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اور پھر یہ دریائی پانی کس کس کی آبیاری کرتا ہے اس پر تحقیقات کرنا صوبائی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اور صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔








