آج کی تاریخ

غزہ جنگ بندی مذاکرات: کیا پائیدار امن ممکن ہے؟

اسرائیل اور حماس نے ہفتے کے روز عندیہ دیا کہ وہ جنگ بندی مذاکرات کے اگلے مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں، جبکہ ثالثی کرنے والے ممالک 42 روزہ عارضی جنگ بندی کو توسیع دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ جنگ بندی جنوری میں شروع ہوئی تھی، مگر اس کی نازک حیثیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔
حماس نے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے “مثبت اشارے” ملنے کا دعویٰ کیا، تاہم اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ دوسری جانب، اسرائیل نے بھی بات چیت کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ امریکی حمایت یافتہ ثالثوں کی دعوت پر پیر کے روز اسرائیلی وفد مذاکرات کے لیے دوحہ روانہ ہوگا۔ حماس کا ایک وفد پہلے ہی قاہرہ میں موجود ہے، جہاں مصری ثالث ان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ قطر کے حکام بھی اس عمل کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔
حماس کے ترجمان عبد اللطیف القانوع نے ایک بیان میں کہا کہ تنظیم مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ یہ فلسطینی عوام کے مطالبات پورے کرے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے اور انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ بعد ازاں، حماس کے وفد نے مصر کی جنرل انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ حسن محمود رشاد سے ملاقات کی اور اعلان کیا کہ تنظیم ایک ایسی کمیٹی کے قیام پر راضی ہو چکی ہے جو انتخابات تک غزہ کا انتظام سنبھالے گی۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس حوالے سے پہلے ہی کہا تھا کہ قاہرہ فلسطینیوں کے ساتھ مل کر ایک آزاد اور پیشہ ور فلسطینی ٹیکنوکریٹ انتظامیہ بنانے پر کام کر رہا ہے، جو جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کی حکمرانی سنبھال سکے۔
عرب لیگ نے حالیہ سربراہی اجلاس میں مصر کے اس منصوبے کو منظور کر لیا، جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے “مشرق وسطیٰ رویرا” منصوبے کے برعکس ایک متبادل ہے۔
ان سفارتی کوششوں کے باوجود، جنگ بندی کی نازک صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہفتے کے روز اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں دو فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، اس کے طیاروں نے ایک ڈرون کو نشانہ بنایا جو اسرائیل سے غزہ میں داخل ہوا تھا، جبکہ ان افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا جو مبینہ طور پر اسے اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک دن قبل بھی اسرائیلی ڈرون حملے میں غزہ میں دو افراد مارے گئے تھے، جن پر اسرائیل نے الزام لگایا کہ وہ شمالی غزہ میں دھماکہ خیز مواد نصب کر رہے تھے۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے تحت، حماس کو 59 یرغمالیوں کو چھوڑنا تھا، جن میں سے اب تک 33 اسرائیلی اور 5 تھائی یرغمالیوں کو رہائی مل چکی ہے، جبکہ بدلے میں 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ تاہم، اسرائیلی حکام کا ماننا ہے کہ باقی ماندہ یرغمالیوں میں سے نصف سے بھی کم زندہ بچے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ پر جو حملہ شروع کیا، اس میں اب تک 48,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً پوری آبادی داخلی طور پر بے گھر ہو چکی ہے۔ جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات اسرائیل پر مسلسل لگائے جا رہے ہیں، مگر وہ ان کی تردید کرتا رہا ہے۔
یہ حملہ 7 اکتوبر 2023 کے اس واقعے کے بعد شروع ہوا، جب حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جرمنی نے عرب لیگ کے اس منصوبے کی حمایت کی ہے جس کا مقصد جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کرنا ہے۔ تاہم، اصل سوال یہ ہے کہ کیا سفارتی کوششیں حقیقی اور پائیدار امن لا سکیں گی، یا پھر یہ جنگ بندی بھی محض ایک عارضی وقفہ ثابت ہوگی؟ اب تک کی صورتحال یہی ظاہر کرتی ہے کہ جب تک دونوں فریقوں کے بنیادی تنازعات حل نہیں ہوتے، مستقل امن کی راہ ہموار کرنا مشکل رہے گا۔

میو اسپتال کا بحران اور حکومت کی ناکامی

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا حالیہ دورۂ میو اسپتال اور وہاں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود پر سخت جملوں کا استعمال ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب یہ معلوم ہوا کہ ایم ایس پہلے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے تھے، اور ان کا استعفیٰ اسپتال پر واجب الادا 3.5 ارب روپے کے مالی بحران کا براہ راست نتیجہ تھا۔
اس واقعے نے پنجاب کے صحت کے نظام میں موجود سنگین خامیوں کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق گزشتہ چند ماہ میں کئی بار میو اسپتال کا دورہ کر چکے تھے اور ہر بار اسپتال انتظامیہ نے انہیں فنڈز کی قلت اور مریضوں کی شکایات سے آگاہ کیا تھا۔ سیکرٹری صحت عظمت محمود بھی وزیر صحت کے ہمراہ کم از کم دو مرتبہ اسپتال جا چکے تھے، جہاں انہیں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ ادویات کی عدم دستیابی کی اصل وجہ واجب الادا اربوں روپے کے بل ہیں۔
یہ بات حیران کن ہے کہ ایک ایسا مسئلہ جسے بار بار حکومت کی اعلیٰ قیادت کے سامنے رکھا گیا، اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اسپتال کے ایم ایس نے بارہا حکام کو اس بحران کی سنگینی سے آگاہ کیا، مگر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا، حتیٰ کہ مجبور ہو کر ڈاکٹر فیصل مسعود نے 2 فروری کو اپنا استعفیٰ جمع کرا دیا۔
اس کے باوجود، سیکرٹری صحت نے 5 مارچ کو ان کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک خط جاری کیا، جبکہ وہ پہلے ہی اپنے عہدے سے الگ ہو چکے تھے۔ اس سے بظاہر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ اسپتال کی انتظامیہ پر ڈالنے کی کوشش کی، تاکہ عوام کی توجہ اپنی غفلت سے ہٹائی جا سکے۔
پنجاب کی طبی برادری نے اس واقعے پر شدید ردعمل دیا ہے اور وزیر اعلیٰ کے رویے کو ڈاکٹروں کی عزت نفس پر حملہ قرار دیا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے ڈاکٹر ملک شاہد شاکر نے اس واقعے کو شعبۂ صحت کے زوال کی انتہا قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، میو اسپتال کو صرف 20 ملین روپے دیے گئے، جو کہ 3.5 ارب روپے کے بقایاجات کے مقابلے میں انتہائی معمولی رقم ہے۔
اسی طرح ینگ کنسلٹنٹس ایسوسی ایشن (وائی سی اے) نے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے رویے کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ ایسے واقعات پاکستان میں پہلے سے موجود برین ڈرین (ذہانت کا انخلا) کے مسئلے کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پنجاب کے صحت کے نظام میں شدید بدنظمی، مالی بے ضابطگیاں اور سیاسی مفادات کی آمیزش نے ایک خطرناک صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں شعبۂ صحت کی نجکاری کے نام پر تجربہ کار اور قابل افسران کو ہٹایا گیا اور ان کی جگہ سیاسی وابستگی رکھنے والے افراد کو تعینات کیا گیا، جس کے نتیجے میں مسائل مزید گھمبیر ہو گئے ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وزیر اعلیٰ نے براہِ راست ایک مستعفی ایم ایس کو ہدفِ تنقید بنایا، جبکہ اصل ذمہ داران، یعنی وزیر صحت اور سیکرٹری صحت، خاموش رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا؟ کیا وزیر اعلیٰ کو حقیقت کا علم نہیں تھا، یا پھر انہیں گمراہ کیا گیا؟ اگر وہ لاعلم تھیں تو یہ ان کے مشیروں کی نااہلی کا ثبوت ہے، اور اگر وہ جان بوجھ کر اس معاملے کو نظر انداز کر رہی تھیں تو یہ ان کی انتظامی صلاحیتوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر میو اسپتال کے مالی بحران کو حل کرے، نہ کہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ ڈاکٹروں اور طبی عملے پر ڈالے۔ اس کے علاوہ، وزیر صحت اور سیکرٹری صحت سے اس غفلت پر وضاحت طلب کی جائے، اور اگر وہ واقعی اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کر رہے تھے تو انہیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا جائے۔
یہ مسئلہ محض ایک اسپتال تک محدود نہیں ہے، بلکہ پنجاب کے دیگر سرکاری اسپتال بھی اسی طرح کے بحران سے دوچار ہیں۔ اگر حکومت نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے، تو آنے والے وقت میں صحت کا نظام مزید بدتر ہو سکتا ہے، اور ڈاکٹرز کا ملک چھوڑ کر جانے کا رجحان تیز ہو جائے گا، جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑے گا۔
میو اسپتال کا بحران صرف فنڈز کی عدم دستیابی کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پنجاب کے صحت کے نظام کی مجموعی ناکامی کا عکاس ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے، صحت کے شعبے کو نظر انداز کرنا عوام کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے حقیقی اصلاحات پر توجہ دے، ورنہ مستقبل میں ایسے واقعات مزید بڑھ سکتے ہیں، جو عوامی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیں گے۔

کالعدم تنظیموں کے خلاف حقیقی کارروائی کب ہوگی؟

پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک فہرست جاری کی ہے جس میں 84 تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ ان تنظیموں کو چندہ دینا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت جرم ہے۔ یہ اقدام بظاہر ایک مستحسن کوشش ہے، خاص طور پر رمضان کے مہینے میں جب زکوٰۃ اور خیرات کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے۔ تاہم، اصل سوال یہ ہے کہ اگر یہ تنظیمیں واقعی کالعدم ہیں تو یہ اب تک متحرک کیسے ہیں؟ اور ان کے خلاف مؤثر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ حکومت نے ایسی فہرست جاری کی ہو۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) پہلے ہی ایسی کئی تنظیموں کو کالعدم قرار دے چکی ہے، مگر حقیقت میں ان میں سے بیشتر تنظیمیں نئے ناموں اور جھنڈوں کے ساتھ دوبارہ فعال ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں محض ایک نئی فہرست جاری کرنے سے کیا واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے؟
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف پالیسی میں سب سے بڑی خامی یہ رہی ہے کہ تنظیموں پر صرف کاغذی پابندی عائد کر دی جاتی ہے، مگر ان کے خلاف عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک تنظیم پر پابندی عائد ہوتے ہی وہ ایک نیا نام اختیار کر لیتی ہے، لیکن اس کی قیادت، نظریہ اور سرگرمیاں ویسی ہی رہتی ہیں۔ کئی تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو پابندی کے باوجود بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرتی ہیں، چندہ جمع کرتی ہیں اور اپنا نیٹ ورک مضبوط کرتی ہیں۔
یہ تضاد صرف مذہبی شدت پسند تنظیموں تک محدود نہیں، بلکہ قوم پرست عسکریت پسند گروہ بھی اسی طریقے سے فعال رہتے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کے پاس ان تنظیموں کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں تو انہیں جڑ سے ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟
پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی میں ہمیشہ دوہرے معیارات دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایک طرف پُرامن احتجاج کرنے والے شہریوں کو سخت ریاستی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ دوسری طرف مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اسلام آباد کی لال مسجد میں بیٹھے شدت پسند عناصر بارہا ریاست کو کھلم کھلا دھمکیاں دے چکے ہیں، مگر ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ریاست ان سے مذاکرات کرتی ہے۔
اسی طرح، جن مذہبی و فرقہ وارانہ تنظیموں پر بظاہر پابندی عائد ہے، وہ آئے روز بڑے اجتماعات منعقد کرتی ہیں، جبکہ پُرامن شہریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو معمولی احتجاج پر بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ جب تک ریاست اپنے اس دوہرے معیار کو ترک نہیں کرتی، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
اگر حکومت واقعی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے محض تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے بجائے ان کے سرکردہ رہنماؤں اور مالی معاونین کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ہوگی۔ جو گروہ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج ہونے چاہئیں اور ان کے رہنماؤں کو سزائیں ملنی چاہئیں۔ اگر حکومت کے پاس کسی تنظیم کے خلاف ثبوت موجود ہیں، تو پھر ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں تاخیر کیوں؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ چند جہادی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں، مگر اکثریت آج بھی آزاد گھوم رہی ہے۔ جب تک شدت پسندوں کے خلاف حقیقی اور مستقل اقدامات نہیں کیے جاتے، محض فہرستیں جاری کرنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔
دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد ہے، جس کے لیے نہ صرف سیکیورٹی فورسز کی طاقت درکار ہے بلکہ سماجی اور فکری سطح پر بھی ایک تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نصاب میں اصلاحات کی جائیں تاکہ مذہبی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کی جڑوں کو ختم کیا جا سکے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر انتہا پسند بیانیے کے خلاف مؤثر مہم چلائی جائے تاکہ نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف مائل ہونے سے روکا جا سکے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں معصوم شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، مگر اس کے باوجود شدت پسندی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ جب تک حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت اور عملی اقدامات نہیں کرے گی، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
فہرستیں جاری کرنا اور بیانات دینا کافی نہیں، اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست دہشت گرد گروہوں کو واقعی ختم کرنے کے لیے مضبوط اور مستقل حکمت عملی اپنائے۔ اگر آج بھی شدت پسند تنظیمیں نیا نام اختیار کرکے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہماری انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف محض نمائشی اقدامات کے بجائے عملی کارروائیاں کی جائیں، ورنہ یہ جنگ کبھی نہیں جیتی جا سکے گی۔

کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی: مالی بے ضابطگیوں کا گڑھ

اسلام آباد کی شہری انتظامیہ میں موجود سنگین خامیوں اور مالی بدانتظامی کی حالیہ تفصیلات نے ایک بار پھر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی ناقص حکمرانی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی تحقیقات میں کمرشل پلاٹس کی نیلامی میں 37 ارب روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، جو اس ادارے میں طویل عرصے سے جاری غیر شفافیت اور عدم احتساب کی واضح مثال ہیں۔
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ صرف نیلامی کا غیر شفاف ہونا ہی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ سی ڈی اے نے اپنی پوری تاریخ میں کبھی مالیاتی گوشوارے تیار ہی نہیں کیے۔ یہ ایک حیران کن انکشاف ہے کہ اربوں روپے کے اثاثے سنبھالنے والا ایک سرکاری ادارہ دہائیوں تک کسی مالیاتی رپورٹنگ کے بغیر کام کرتا رہا، جبکہ اسے سی ڈی اے ایکٹ کے تحت ایسا کرنے کا قانونی طور پر پابند بنایا گیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر احتساب سے گریز کیا گیا، اور اس عمل میں مختلف حکومتوں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں۔
پی اے سی کی تشویش بالکل بجا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سی ڈی اے بورڈ نے 29 کمرشل پلاٹس کی نیلامی کی منظوری دی تھی، مگر ان میں سے صرف 22 پلاٹس ہی نیلام کیے گئے، جبکہ پانچ کو ملتوی کر دیا گیا اور ایک پلاٹ قانونی پیچیدگیوں کا شکار رہا۔ اس سوال کا جواب آج تک نہیں ملا کہ اگر نیلامی کے ان مسائل کا پہلے سے اندازہ تھا، تو پھر بورڈ نے منظوری کیوں دی؟ یہ صورتحال یا تو شدید نااہلی کو ظاہر کرتی ہے یا پھر کھلی بدعنوانی کو— اور غالباً دونوں عناصر کارفرما ہیں۔
اس پورے معاملے میں سی ڈی اے چیئرمین محمد علی رندھاوا کا رویہ بھی خاصا معنی خیز ہے۔ انہوں نے آڈٹ حکام کے اعتراضات کا سنجیدگی سے جواب دینے کے بجائے محض یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ وہ رپورٹ پڑھ لیں”۔ یہ وہی افسر شاہی کا تکبر ہے جس نے اس ادارے میں مالی بدانتظامی کو پروان چڑھایا ہے۔ بعد میں ان کی معذرت سے زمینی حقائق نہیں بدل جاتے کہ اس سطح کے افسران شفافیت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ پی اے سی کے ارکان کی جانب سے ان کے رویے پر کی جانے والی تنقید بالکل بجا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں کوئی ٹھوس کارروائی ہوگی؟
یہ مالیاتی بے ضابطگیاں صرف سی ڈی اے تک محدود نہیں، بلکہ ان کے اثرات پاکستان کی پوری ریئل اسٹیٹ مارکیٹ پر پڑ سکتے ہیں۔ پہلے ہی اس شعبے میں غیر شفافیت، قیاس آرائیوں اور سیاسی مداخلت نے اعتماد کو کمزور کر رکھا ہے، اور جب ملک کا سب سے بڑا شہری ترقیاتی ادارہ بنیادی مالیاتی قوانین پر عمل نہ کرے تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ اگر خریداروں کو سی ڈی اے کی نیلامیوں پر اعتماد نہیں ہوگا، تو یہ پہلے سے کمزور معیشت کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوگا۔
پی اے سی نے سی ڈی اے کو چھ ماہ کے اندر مالیاتی گوشوارے جمع کرانے کا حکم دیا ہے، جو کہ ایک ضروری مگر تاخیر شدہ قدم ہے۔ تاہم، صرف ڈیڈ لائن دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جب تک سخت قوانین کا نفاذ، قانونی کارروائیاں اور مستقل نگرانی نہیں کی جاتی، یہ ہدایت بھی محض ایک اور کاغذی کاروائی ثابت ہوگی۔ سی ڈی اے کو نہ صرف مقررہ وقت پر اپنے مالیاتی گوشوارے جمع کرانے چاہئیں، بلکہ انہیں آئندہ ہر سال باقاعدگی سے شائع اور آزادانہ طور پر آڈٹ کروانا چاہیے۔
پاکستان میں حکومتی ناکامیوں کی سب سے بڑی وجہ کمزور ادارہ جاتی احتساب ہے، اور سی ڈی اے کا معاملہ اس کی ایک واضح مثال ہے کہ کیسے بیوروکریسی کی سستی مالی بدانتظامی کو فروغ دیتی ہے۔ اگر اس انکوائری کے نتیجے میں کوئی عملی اصلاحات نہ ہوئیں— جیسے کہ قانونی نتائج، سخت مالی نگرانی، اور سی ڈی اے کے مالیاتی امور میں مکمل شفافیت— تو یہ اس تاثر کو مزید مضبوط کرے گا کہ پاکستان میں احتساب صرف کمزور طبقات کے لیے ہے، جبکہ بااثر افراد اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔
پی اے سی کی انکشافات کو کسی بھی صورت سرکاری فائلوں میں دبنے نہیں دینا چاہیے۔ پارلیمان، عدلیہ اور سول سوسائٹی کو اس معاملے میں شفافیت کے نفاذ کے لیے مستقل دباؤ ڈالنا ہوگا۔ سی ڈی اے کی بے لگام آزادی کا خاتمہ صرف ڈیڈ لائنز اور معذرتوں سے نہیں ہوگا، بلکہ ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی سے ہوگا جو دہائیوں تک مالیاتی بدانتظامی کے ذمہ دار رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو اگلی آڈٹ رپورٹ میں اس سے بھی بڑا اسکینڈل بے نقاب ہونے کا امکان ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں