ملتان (سٹاف رپورٹر) زکریا یونیورسٹی ملتان کے پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے انٹرویوز کی سکروٹنی پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔ جس میں ڈین آف سائنسز ڈاکٹر جاوید احمد اور عارضی تعینات قائم مقام رجسٹرار اعجاز احمد کی جانب سے کچھ ڈیپارٹمنٹس کے اپنے من پسند افراد کو منتخب کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا اور ڈین آف سائنسز ڈاکٹر جاوید احمد اور عارضی تعینات قائم مقام رجسٹرار اعجاز احمد کی جانب سے میرٹ کی کھلم کھلا دھجیاں بکھیری جانے لگیں اور سونے پر سہاگہ ڈین آف سائنسز ڈاکٹر جاوید احمد اور عارضی تعینات قائم مقام رجسٹرار اعجاز احمد کی جانب سے سکروٹنی کمیٹی کے ممبران کو ہراساں و پریشان کرتے ہوئے دباؤ ڈالا گیا کہ ان کے من پسند افراد کا نام فائنل کروایا جائے۔ ایسا ہی ایک انکشاف ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر کے عہدے کے لیے امیدواران کے سکروٹنی کے موقع پر سامنے آیا۔ فیکلٹی آف سائنس کے ڈین ڈاکٹر جاوید احمد سے ایک ممبر نے ایک امیدوار کی سکروٹنی بارے پوچھا تو انہوں نے سختی سے اس ممبر کو ڈانٹ کر کہا کہ چپ کرو اور جو کہا وہ کرو۔ میٹنگ کے دوران ایک ممبر نے سکروٹنی کمیٹی کے چیئرمین ڈین ڈاکٹر جاوید احمد سے وہ اصل اشتہارات اور متعلقہ دستاویزات دکھانے کی گزارش کی، جو جانچ کے لیے ضروری تھیں لیکن فائل سے منسلک نہیں تھیں۔ مزید یہ کہ ڈاکٹر عامر رضا کی سکروٹنی کے لیے فائل میں ایک صفحہ بھی غائب کر دیا گیا تھا۔ یہ تمام مطلوبہ دستاویزات میٹنگ کے اختتام تک ممبران کو فراہم نہیں کی گئیں۔ سکروٹنی کمیٹی کے ممبر ڈائریکٹر کوالٹی ایشورنس پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق بھی اجلاس کے دوران موجود نہیں تھے۔ ایک ممبر کو ڈاکٹر عامر رضا کی اہلیت سے اتفاق نہیں تھا، کیونکہ جن دستاویزات کا ممبران نے تقاضا کیا تھا وہ فراہم نہیں کی گئیں اور اصل اشتہارات بھی میٹنگ کے اختتام تک نہ دکھائے گئے۔ لیکن ڈین فیکلٹی آف سائنس ڈاکٹر جاوید احمد کی جانب سے نفسیاتی دباؤ، ہراساں و پریشان کیا گیا، تاکہ ان کی بات مانی جائے۔ اس دن تمام ممبران نے صرف میٹنگ کی حاضری شیٹ پر دستخط کیے تھے جبکہ سکروٹنی کا عمل فائنل ہی نہ کیا گیا۔ اخبارات میں شائع شدہ اشتہار کے مطابق پروفیسر کے لیے کم از کم 15 سال کا تدریسی/تحقیقی تجربہ درکار ہے، جبکہ ڈاکٹر عامر کے پاس سکروٹنی کے ٹائم پر صرف 13 سال کا تجربہ ہے اس طرح وہ میرٹ پر پورے نہیں اترتے۔ بینک کی ملازمت کا ان کا OG-III تجربہ اس میں شمار نہیں ہوتا کیونکہ اشتہار کے مطابق صرف تدریسی/تحقیقی تجربہ درکار تھا، جیسا کہ بی زیڈ یو کے اشتہار اور HEC کی اہلیت کے معیار میں واضح طور پر درج ہے کل پیشہ ورانہ تجربہ 15 سال درکار ہے جس میں سے کم از کم 5 سال تدریسی تجربہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر عامر کے پاس تقریباً 12 سال کا تدریسی و پیشہ ورانہ تجربہ ہے۔ ان کا ایم فل اور پی ایچ ڈی تحقیقی تجربہ شمار نہیں ہو سکتا، جیسا کہ BZU اشتہار اور HEC کے معیار میں بیان کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ ڈاکٹر عامر کی UBL میں مستقل ملازمت کے قانونی شواہد یعنی NOC یا دیگر دستاویزات بھی فائل سے منسلک نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ممبران کو اسکرونٹی کمیٹی کے جلاس پر زبردستی دستخط کا کہا گیا۔ جس پر کچھ ممبران نے اعتراضات لکھ کر رجسٹرار کو بھیجے گئے مگر ڈین فیکلٹی آف سائنسز ڈاکٹر جاوید احمد نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غیر دستخط شدہ منٹس پر دستخط کرنے پر ممبران کو مجبور کیا جس پر ممبران نے انکار کر دیا۔ اور اب دوبارہ ڈاکٹر عامر رضا کو اہل کروائے جانے کے لیے عارضی تعینات قائم مقام رجسٹرار اور ڈین آف سائنسز ڈاکٹر جاوید احمد پر تول رہے ہیں تاکہ اپنے چہیتے ڈاکٹر عامر رضا کو میرٹ سے ہٹ کر اہل کروایا جا سکے۔ حیران کن طور پر وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری تمام تر صورتحال اور میرٹ کی پائمالی سے اگاہی کے باوجود مکمل طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
