بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ ریاست ایک بھرپور ردعمل دے گی، جس میں ممکنہ طور پر وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیاں شامل ہوں گی۔ تاہم، اس بحران کے سیاسی پہلوؤں پر بھی بحث جاری رہے گی، خاص طور پر اس حوالے سے کہ آیا مذاکرات کا آغاز کیا جانا چاہیے یا نہیں۔
بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک اور اس کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے تناظر میں ایک اور اہم پہلو بیرونی حمایت کا حصول ہے۔ اس حوالے سے تین اہم عوامل زیر غور ہیں۔
پہلا، حالیہ ہفتوں میں بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے چین کے خلاف سخت تنبیہات نے بیجنگ کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے، خاص طور پر چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت۔ اس پس منظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین پاکستان کی انسداد بغاوت کارروائیوں کے لیے مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کرے گا، جیسا کہ ماضی میں ایران نے 1970 کی دہائی میں کیا تھا۔
دوسرا، پاکستان مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ سے کسی بڑی فوجی مدد کی توقع نہیں کر سکتا۔ نہ صرف یوکرین تنازع اور دیگر سیاسی مسائل اس میں رکاوٹ ہیں، بلکہ مغربی ممالک عمومی طور پر علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جبکہ مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ان کا موقف مختلف ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام آباد سفارتی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے پر زیادہ زور دے گا، تاکہ بھارت کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے بین الاقوامی لابنگ کو بے اثر کیا جا سکے۔
تیسرا، تاریخی طور پر بیرونی فوجی مدد انسداد بغاوت آپریشنز میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ایران کے شاہ نے 1970 کی دہائی میں پاکستان کو بلوچ شورش کو کچلنے کے لیے فوجی مدد فراہم کی تھی۔ اب یہ بحث جاری ہے کہ آیا چین بھی پاکستان کے لیے ایسا ہی کردار ادا کرے گا یا نہیں۔
بلوچستان میں چینی مفادات عسکریت پسندوں کا خاص ہدف رہے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر گروہ چینی شہریوں، تجارتی منصوبوں اور سفارتی مراکز پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ ان تنظیموں نے حالیہ اجلاس میں اپنی حکمت عملی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، خاص طور پر سی پیک اور چینی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے۔
چین پہلے ہی پاکستان میں اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔ بیجنگ پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے، لیکن وہ اس کے لیے محفوظ ماحول کا تقاضا کرتا ہے۔ گزشتہ برس کراچی میں چینی شہریوں پر ہونے والے بی ایل اے کے حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کچھ وقت کے لیے کشیدہ ہو گئے تھے، تاہم بعد میں اعتماد بحال کرنے کے اقدامات کیے گئے۔
یہ واضح نہیں کہ چین بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں کس حد تک تعاون کرے گا۔ ماضی میں چین نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو سفارتی سطح پر تو ضرور سپورٹ کیا، لیکن عملی طور پر اس کی مدد محدود رہی۔ مثال کے طور پر، 2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کا آغاز چینی صدر ہوجن تاؤ کی اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو براہ راست درخواست کے بعد ہوا تھا، کیونکہ مدرسہ کے طلبہ نے چینی شہریوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کے آغاز میں بھی چین کا کردار تھا۔ کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد بیجنگ نے ایک بار پھر پاکستان سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے خود براہ راست مداخلت سے گریز کیا۔
پاکستان نے سی پیک اور چینی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع سیکیورٹی میکانزم تشکیل دیا ہے، جس میں ایک خصوصی سیکیورٹی ڈویژن بھی شامل ہے۔ لیکن چین ہر قسم کے خطرات کو “زیرو ٹالرینس” کی پالیسی کے تحت دیکھتا ہے اور اپنے اتحادیوں سے بھی اسی سخت گیر مؤقف کی توقع رکھتا ہے۔
اسلام آباد بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا چاہتا ہے، لیکن معاشی مشکلات اس کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ مکمل فوجی آپریشن پر بھاری اخراجات آئیں گے، جبکہ ریاست پہلے ہی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے خلاف “عزمِ استحکام” کے نام سے جاری آپریشن اور خیبرپختونخوا میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے۔ ان حالات میں مزید فوجی کارروائیوں کے سیاسی اور معاشی اثرات کافی سنگین ہو سکتے ہیں۔
ریاستی ادارے بلوچستان میں سیاسی مذاکرات کے امکانات کو کمزور سمجھتے ہیں، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے ان کی گرفت کمزور ہو سکتی ہے اور بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ حکمران طبقے میں وہ فہم اور بصیرت نظر نہیں آتی جو بلوچستان کے مسئلے کو صحیح معنوں میں حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ مزید برآں، سیاسی قیادت اس مسئلے میں زیادہ دلچسپی بھی نہیں لیتی، کیونکہ فیصلہ سازی کا اختیار زیادہ تر ریاستی اداروں کے پاس ہے۔
اگر کوئی سیاسی پیش رفت نہ کی گئی، تو عسکری آپریشن ہی واحد حل رہ جائے گا، جو صرف وقتی سیکیورٹی خطرات کو کم کر سکتا ہے لیکن بلوچستان کے دیرینہ مسائل کا مستقل حل نہیں نکال سکتا۔ چینی ماہرین بھی اس معاملے پر بحث کرتے رہتے ہیں کہ چین کیسے پاکستان کے ساتھ اپنے سیکیورٹی تعاون کو مزید بڑھا سکتا ہے، جیسے کہ انٹیلیجنس شیئرنگ، جوائنٹ سیکیورٹی مشقیں، اور پاکستانی پولیس و انسداد دہشت گردی فورسز کی استعداد کار میں اضافہ۔
ماضی میں چین نے پاکستان کے ساتھ نجی سیکیورٹی کنسلٹنٹس بھیجنے جیسے منصوبوں پر غور کیا تھا، لیکن اسلام آباد کی ہچکچاہٹ کے باعث اس پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا چین نگرانی کے آلات، فوجی سازوسامان، یا حتیٰ کہ کسی حد تک مالی معاونت کے ذریعے پاکستان کی عسکری کارروائی میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرے گا یا نہیں۔
بلوچستان میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں، بلکہ چین کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ بیجنگ سمجھتا ہے کہ غیر مستحکم ہمسایہ ممالک دہشت گردی کے خطرات کو بڑھاتے ہیں اور خطے میں اس کے جغرافیائی و اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
چین تاریخی طور پر دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت سے گریز کرتا رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں میانمار جیسے ممالک میں اس کی پالیسی میں کچھ لچک دیکھی گئی ہے، جہاں بیجنگ نے فوجی جنتا کی حمایت کی اور بعض باغی گروپوں کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں کیں۔
اگرچہ چین پاکستان کی فوجی کارروائی کے اخراجات میں براہ راست شریک ہونے سے گریز کر سکتا ہے، لیکن سیکیورٹی تعاون کے دوسرے امکانات اب بھی موجود ہیں۔ ایک ایسا فریم ورک تیار کیا جا سکتا ہے جس میں چینی سیکیورٹی اہلکاروں کی براہ راست تعیناتی کے بجائے مشترکہ انٹیلیجنس شیئرنگ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت اور سرحدی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہو۔
بالآخر، پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بلوچستان میں استحکام قائم کرنا ہے۔ ایسے مشکل حالات میں، ممالک عموماً اپنے اتحادیوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستان بھی چین سے یہی امید رکھے گا کہ وہ مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا ہوگا، چاہے وہ سفارتی مدد ہو، مالی تعاون ہو، یا سیکیورٹی تعاون۔
اقتدار، غرور اور زوال
پاکستان کی 77 سالہ تاریخ اس تلخ حقیقت کی گواہ ہے کہ جو بھی اقتدار میں آیا، اس نے اسے اپنی ذاتی طاقت اور مفادات کے لیے استعمال کیا۔ سیاستدان ہوں، فوجی حکمران، عدلیہ کے اعلیٰ جج یا بیوروکریسی کے عہدیدار، ہر ایک نے عوام کی خدمت کے بجائے اپنی طاقت کو دوام بخشنے کو ترجیح دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے کمزور ہو گئے، کرپشن جڑ پکڑ گئی، اور عام آدمی مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ آج جو سیاسی، معاشی اور سماجی بحران ملک کو جکڑے ہوئے ہیں، وہ اسی قیادت کی ناکامی کا نتیجہ ہیں، جو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اقتدار عارضی ہوتا ہے اور اصل عظمت حکمرانی میں نہیں، بلکہ خدمت میں ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ عوامی خدمت کے وعدے کیے جاتے رہے، لیکن اقتدار حاصل ہوتے ہی یہ وعدے پسِ پشت ڈال دیے گئے۔ سیاستدانوں نے طاقت کو ذاتی دولت کمانے، اقربا پروری اور کرپشن کے لیے استعمال کیا، اور جب اقتدار سے محروم ہوئے تو ہر ممکن طریقے سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کوئی بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہوا، تو کسی نے پسِ پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کا راستہ اپنایا۔ یہ سیاستدان عوامی فلاح کے بجائے ذاتی اقتدار کے کھیل میں مصروف رہے، کبھی آمر بنے، کبھی مظلومیت کا لبادہ اوڑھا، لیکن ادارے بنانے اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
یہ روش صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہی۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ، جس پر خارجہ پالیسی، معیشت اور ریاستی معاملات کو کنٹرول کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، خود کو ہمیشہ قانون سے بالاتر سمجھتی رہی ہے۔ ایک دور میں ایک طاقتور فوجی حکمران نے ملک کے تمام فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیے، اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا، اور سیاسی مخالفین کے مستقبل کا فیصلہ کیا۔ لیکن جب وقت کا پہیہ گھوما، تو وہی حکمران جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا، اس سرزمین سے دور جسے کبھی اپنی طاقت کا مرکز سمجھتا تھا۔ اس سے پہلے بھی ایسے کئی حکمران آئے، اور ان کا انجام بھی وہی ہوا—اقتدار کے دنوں میں سب کچھ ان کے کنٹرول میں رہا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ تاریخ کے صفحات میں صرف ایک حاشیے کی حیثیت اختیار کر گئے۔
عدلیہ کا کردار بھی اس سے مختلف نہیں رہا۔ کئی سابق چیف جسٹس ایسے گزرے، جنہوں نے اپنے دور میں سیاسی فیصلے دیے، بڑے بڑے حکومتی معاملات میں مداخلت کی، اور خود کو “قانون کا رکھوالا” سمجھا۔ لیکن جیسے ہی ان کا عہدہ ختم ہوا، ان کی حیثیت بھی ختم ہو گئی۔ ایک سابق چیف جسٹس جو کبھی اپنی طاقت کے نشے میں سرشار تھا، آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک اور، جسے عدالتی فعالیت کا چہرہ سمجھا جاتا تھا، آج زیادہ تر تنازعات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے، انصاف کے ساتھ نہیں۔ ان کے فیصلے اصلاحات پر نہیں بلکہ اختیارات کی حد سے تجاوز پر مبنی تھے، کیونکہ طاقت میں وقار اور عاجزی کا فقدان تھا۔
یہ رویہ صرف اعلیٰ حکومتی سطح تک محدود نہیں بلکہ ہر سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ بیوروکریسی میں ضلع افسران سے لے کر پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں تک، ہر ایک نے اپنے اختیارات کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ عام عوام کے لیے ان کے دروازے بند رہے، لیکن جب وہ ریٹائر ہوئے، تو وہی طاقتور لوگ پنشن کے حصول کے لیے دربدر پھرنے لگے۔ یہ سب اس سسٹم کا حصہ بنے جس نے پاکستان کو تنزلی کی راہ پر ڈال دیا۔
اس کے برعکس، ترقی یافتہ دنیا میں قیادت کو طاقت نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ وہاں سیاستدانوں، ججوں اور سرکاری افسران کے اختیارات پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے، اور انہیں جوابدہ بنایا جاتا ہے۔ وہ اقتدار کو اپنا حق نہیں بلکہ ایک عارضی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومتیں شفاف، منظم اور عوامی خدمت پر مبنی ہوتی ہیں۔
یہ تضاد اس وقت اور زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے جب یہ دیکھا جائے کہ قیادت میں عاجزی اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے، لیکن پاکستان—جو ایک اسلامی جمہوریہ ہے—نے اس بنیادی اصول کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ قرآن میں غرور اور تکبر کی مذمت کی گئی ہے اور حکمرانوں کو عاجزی اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اقتدار میں آتے ہی حکمران عوام کی مشکلات کو بھول کر اپنی عیاشیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ملک معاشی عدم استحکام، کرپشن اور ناقص حکمرانی کی وجہ سے کس حال میں پہنچ چکا ہے۔
پاکستان میں پائی جانے والی اقتصادی بدحالی، اداروں کی کمزوری، اور سماجی ناانصافیاں اس قیادت کی دین ہیں جو اختیار کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ ایک قوم ترقی نہیں کر سکتی جب اس کے حکمران اقتدار کو عوام کی خدمت کے بجائے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کریں۔
یہی خودغرض سیاست اور اقتدار کی ہوس ہے جس نے پاکستان کو بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کوئی ملک اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک اس کے حکمران اس کی فلاح کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں۔
آگے کا راستہ واضح ہے: پاکستان میں اقتدار کو جوابدہی کے ساتھ مشروط کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ خدمت کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا، جو نہ صرف ایک مذہبی اصول ہے بلکہ تاریخ بھی اس کی گواہ ہے کہ جن قوموں نے اس اصول کو اپنایا، وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئیں۔
اگر پاکستان کو بحران سے نکالنا ہے تو قیادت میں وہ کھویا ہوا عنصر واپس لانا ہوگا جو اسے حقیقی معنوں میں مضبوط بنا سکتا ہے—عاجزی، دیانت داری اور خدمت کا جذبہ۔ فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے: وہ یا تو اسی راہ پر چلتے رہیں جو ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے، یا پھر خدمت، ایمانداری اور عاجزی کو اپنا کر پاکستان کو ایک بہتر مستقبل دے سکتے ہیں۔
پاکستان کے مستقبل کا دار و مدار اسی بات پر ہے کہ جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ یہ سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ سیکھیں گے؟
غزہ: تعمیر یا تباہی؟
مصر کا 53 ارب ڈالر کا منصوبہ، جو غزہ کی تعمیر نو کے لیے پیش کیا گیا ہے، امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کے اس متنازعہ اور شدید تنقید کا شکار تصور سے یکسر مختلف ہے، جس کے تحت غزہ کی آبادی کو بے دخل کر کے اسےمشرق وسطیٰ کی رویرا” بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہ منصوبہ نہ صرف جنگ سے تباہ حال غزہ کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ عرب ممالک کے لیے بھی ایک امتحان ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اب پہلی بار، انہوں نے فلسطینیوں کے لیے ایک مشترکہ، عملی اقدام پر اتفاق کیا ہے۔ یہ منصوبہ جہاں فلسطینیوں کے لیے زندگی کی ایک نئی امید ہے، وہیں یہ واشنگٹن کی مفاد پرست پالیسیوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ مشرق وسطیٰ کو مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کی سازش قابل قبول نہیں۔
یہ منصوبہ کئی مراحل پر مشتمل ہے، جس میں ابتدائی طور پر ہنگامی امداد فراہم کی جائے گی، اس کے بعد بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور آخر میں ایک خودمختار فلسطینی انتظامیہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس منصوبے کی حمایت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے علاقائی طاقتور ممالک کا آنا ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، کیونکہ یہ عرب دنیا کی اس سفارتی جمود کو توڑنے کی کوشش ہے جو اسرائیل-فلسطین تنازع پر ہمیشہ غیر مؤثر رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے اس منصوبے کی تائید بھی اسے مزید اعتبار بخشتی ہے۔
لیکن عرب اتحاد کے اس مظاہرے کے باوجود کئی اہم سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس منصوبے میں حماس کے کردار کا تعین کیسے ہوگا؟ منصوبے میں تجویز دی گئی ہے کہ ایک عبوری فلسطینی ٹیکنوکریٹ انتظامیہ اقتدار سنبھالے، جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی حکمرانی بحال کی جائے۔ تاہم، حماس، جو غزہ میں ایک مضبوط سیاسی اور عسکری حیثیت رکھتی ہے، کو ان مذاکرات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اگر فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کا کنٹرول دیا جاتا ہے، تو کیا حماس بخوشی اقتدار چھوڑ دے گی، یا فلسطینیوں کے درمیان ایک اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی؟ یہ عرب منصوبہ اس نازک مسئلے کو نظرانداز کرتا دکھائی دیتا ہے، جبکہ کسی بھی پائیدار حل کے لیے حماس کے کردار اور فلسطینی سیاسی اتحاد کے سوال کو حل کرنا ناگزیر ہوگا۔
دوسرا اہم مسئلہ مالی وسائل کا ہے۔ خلیجی ممالک نے اس منصوبے کے لیے مالی مدد کا عندیہ دیا ہے، لیکن 53 ارب ڈالر کی یہ خطیر رقم ایک طویل المدتی اور مربوط سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے کیے گئے وعدے اکثر حقیقت میں تبدیل نہیں ہوتے۔ مزید برآں، عالمی معاشی عدم استحکام، تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور عرب ممالک کی اندرونی اقتصادی ترجیحات اس منصوبے کی طویل المدتی مالی معاونت کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔
اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ، جو فلسطینی خودمختاری کے حق میں نہیں رہی، نے اس منصوبے کو فوراً مسترد کر دیا اور اپنے متنازعہ “غزہ رویرا” منصوبے پر قائم ہے۔ اسرائیل نے بھی عرب ممالک کی قیادت میں کسی بھی بحالی منصوبے میں تعاون کرنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی، کیونکہ وہ سیکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر اس تجویز کو مسترد کر رہا ہے۔ جب تک واشنگٹن اور تل ابیب اس منصوبے کی سفارتی حمایت نہیں کرتے، اس پر عملدرآمد غیر یقینی رہے گا۔
تاہم، ان تمام پیچیدگیوں کے باوجود یہ منصوبہ ایک بڑی سفارتی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کا متبادل پیش کرتا ہے اور دنیا کو مجبور کرتا ہے کہ وہ غزہ کے مستقبل کو صرف بے دخلی اور تباہی کے تناظر میں نہ دیکھے، بلکہ ایک تعمیری نقطہ نظر اختیار کرے۔
کم از کم، یہ منصوبہ عرب ممالک کی اجتماعی قوت کے امکان کو اجاگر کرتا ہے اور خطے میں ایک نئے سفارتی دور کا اشارہ دیتا ہے۔ لیکن کیا یہ اتحاد عملی اقدامات میں تبدیل ہو سکے گا، یا یہ بھی ماضی کے وعدوں کی طرح غیر مؤثر ثابت ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے، اور اس کا جواب آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔