آج کی تاریخ

انسانی ہمدردی پر حملہ: اسرائیلی جارحیت اور عالمی ضمیر کی آزمائش

اسرائیلی بحری افواج کی جانب سے غزہ کے محصور شہریوں کے لیے امداد لے جانے والے بین الاقوامی امدادی قافلے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ اور اس میں شامل کارکنان کی گرفتاری نے ایک بار پھر دنیا کو یہ یاد دلایا ہے کہ انسانی ہمدردی اور بنیادی اخلاقی اصول کس حد تک سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف اسرائیل کے غیر انسانی طرزِعمل کو بے نقاب کیا ہے بلکہ عالمی ضمیر اور عالمی قانون کے موجودہ بحران کو بھی نمایاں کیا ہے۔غزہ کی پٹی گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیلی محاصرے اور مسلسل بمباری کا نشانہ بنی ہوئی ہے، جہاں اقوامِ متحدہ خود قحط، ادویات کی شدید قلت، اور نظامِ زندگی کی مکمل تباہی کی وارننگ جاری کر چکی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی فلوٹیلا، جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 450 سے زائد انسانی ہمدرد کارکنان اور رضاکار شامل ہوں، صرف خوراک، ادویات اور دیگر امدادی اشیاء لے کر ان محصور لوگوں تک پہنچنا چاہے، تو اس کے راستے میں بندوق، توپ اور فوجی طاقت کا استعمال ایک کھلی بربریت کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے اس قافلے کو کھلے سمندر میں روکنا، کارکنان کو حراست میں لینا، اور ان کی نقل و حرکت کو دبانا ایک ایسا جرم ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کی عالمی اقدار کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔پاکستان، ترکی، ملائشیا، جنوبی افریقہ، اسپین، کولمبیا اور برطانیہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی جانب سے اس جارحیت کی شدید مذمت سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس حملے کو “وحشیانہ” قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ تمام گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور انسانی امداد کو روکنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ انہوں نے درست کہا کہ ان کارکنوں کا “جرم” صرف یہ تھا کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کے لیے امداد لے جا رہے تھے۔یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں کارروائی کی، جو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی بحری قوانین کے مطابق کسی بھی خودمختار ملک کو بین الاقوامی پانیوں میں کسی غیر مسلح امدادی قافلے کو زبردستی روکنے اور اس کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ لیکن اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی قوانین کو اپنے جارحانہ عزائم کے تابع رکھے ہوئے ہے، اور بدقسمتی سے، عالمی طاقتیں اکثر خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔اس مرتبہ البتہ فرق یہ ہے کہ فلوٹیلا میں شامل افراد میں ماحولیاتی تحفظ کی عالمی علامت گریٹا تھنبرگ، سابق پاکستانی سینیٹر مشتاق احمد خان، اور نیلسن منڈیلا کے نواسے منڈلا منڈیلا جیسے نمایاں شخصیات شامل تھیں۔ ان کی موجودگی نے اس واقعے کو محض انسانی امداد کی ممانعت سے بڑھا کر ایک علامتی عالمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ یہ مسئلہ اب صرف فلسطینیوں کی امداد کا نہیں رہا بلکہ یہ سوال اب دنیا کے ہر باشعور فرد کے ضمیر سے ہے: کیا ہم انسانی ہمدردی کو سیاسی مفادات کے تابع ہونے دیں گے؟ کیا ظالم کے سامنے مظلوم کو جرم کی مانند پیش کرنا قبول کریں گے؟فلسطینی وزارتِ خارجہ نے بجا طور پر اس واقعے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ اسے غزہ کی ساحلی حدود پر کوئی خودمختاری حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے 2006 سے غزہ کا غیر قانونی محاصرہ کر رکھا ہے، جو نہ صرف انسانی المیہ پیدا کر چکا ہے بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا عکاس بھی ہے۔ اس محاصرے کے دوران، خوراک، ادویات، ایندھن اور حتیٰ کہ پانی تک کو غزہ کے باسیوں سے چھینا گیا ہے۔ اب اگر کوئی امدادی قافلہ اس محاصرے کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملنی چاہیے نہ کہ گولیوں اور گرفتاریوں سے اس کا استقبال ہو۔اس تناظر میں پاکستان کی سفارتی پوزیشن اور مؤقف نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں واضح طور پر کہا گیا کہ یہ اسرائیلی اقدام نہ صرف انسانی ہمدردی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک دانستہ کوشش ہے تاکہ فلسطینیوں کو انسانی امداد سے محروم رکھا جا سکے۔ مزید برآں، پاکستانی حکومت نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ان مسلسل خلاف ورزیوں پر اسے جوابدہ ٹھہرائے۔یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ اسرائیل نے اس مہم کو ناکام بنانے کے لیے خوف اور دھونس کی پالیسی اپنائی ہے۔ گزشتہ جون میں بھی اسی نوعیت کی ایک امدادی کشتی مدلین کو بین الاقوامی پانیوں میں روکا گیا تھا۔ ماضی میں ماوی مرمارا جیسے واقعے میں اسرائیلی فوج نے نہتے کارکنوں پر فائرنگ کی، جس میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔ ان واقعات کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل انسانی ہمدردی کے ہر عمل کو سیکیورٹی کے نام پر دبانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا مقصد نہ صرف فلسطینیوں کو تنہا کرنا ہے بلکہ عالمی یکجہتی کو بھی کچل دینا ہے۔اس صورتحال میں عالمی برادری، خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین جیسے اداروں کی خاموشی قابلِ مذمت ہے۔ جہاں جنوبی افریقہ، ملائشیا اور ترکی جیسے ممالک نے واضح طور پر احتجاج ریکارڈ کروایا، وہیں بہت سے مغربی ممالک، جنہیں انسانی حقوق کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، اس مسئلے پر یا تو مبہم بیانات دے رہے ہیں یا مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ وہ دوہرا معیار ہے جو عالمی نظامِ انصاف کو کمزور کر رہا ہے اور ظالم کو کھلی چھوٹ دے رہا ہے۔اداریہ اس مقام پر اس بات پر زور دینا ضروری سمجھتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف مسلمانوں یا عربوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے۔ دنیا کے ہر حساس اور باشعور انسان کا ضمیر مطالبہ کرتا ہے کہ نہتے فلسطینی عوام کو زندگی گزارنے کا بنیادی حق دیا جائے۔ ان پر مسلط کی گئی غیر قانونی پابندیوں کو ختم کیا جائے، اور انسانی امداد کے قافلوں کو بلا روک ٹوک اپنی منزل تک پہنچنے دیا جائے۔یہ وقت ہے کہ پاکستان جیسے ممالک اپنی سفارتی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کریں۔ او آئی سی کو اس معاملے پر فوری اجلاس طلب کرنا چاہیے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک جامع قرارداد پیش کی جانی چاہیے۔ عالمی میڈیا، جو اکثر اس نوعیت کے واقعات کو نظر انداز کرتا ہے، اسے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ حقائق عوام تک پہنچ سکیں۔اہم ترین پہلو یہ ہے کہ دنیا اسرائیل کے خلاف محض الفاظ کی حد تک نہ رہے بلکہ اس کے جارحانہ اقدامات پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ اقتصادی دباؤ، سفارتی تنہائی، اور بین الاقوامی عدالتی کارروائیاں ہی وہ اقدامات ہیں جو اسرائیل کو انسانی ہمدردی کے خلاف اقدامات سے روک سکتی ہیں۔اداریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی آواز مزید بلند کرے، اور غزہ کے عوام کے لیے انسانی امداد کا سلسلہ براہِ راست بحال کرنے کے لیے علاقائی ممالک خصوصاً مصر اور ترکی کے ساتھ مربوط کوششیں کرے۔ ساتھ ہی، بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ فلوٹیلا میں شامل افراد کی فوری رہائی کے لیے آواز بلند کریں، اور اس اہم لمحے کو تاریخ میں ایک انسانی ضمیر کی جیت کے طور پر رقم کریں۔آخر میں، یہ واقعہ ایک سوال چھوڑتا ہے: کیا دنیا آج بھی اس قابل ہے کہ وہ ظالم کے سامنے مظلوم کا ساتھ دے؟ یا ہم صرف اپنے مفادات کی عینک سے ہی دنیا کو دیکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں؟ اگر عالمی ضمیر واقعی زندہ ہے، تو آج اسے جاگنا ہوگا، بولنا ہوگا، اور ظلم کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ اگر آج ہم انسانی ہمدردی پر حملے پر خاموش رہ گئے، تو کل انسانیت خود تاریخ بن جائے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں