آج کی تاریخ

کچے میں 23 سال میں 20 ارب خرچ، امن ملا نہ انصاف، ڈاکو راج، پولیس فائلیں بھرتی رہی

ملتان (سٹاف رپورٹر) مختلف سرکاری و نیم سرکاری ذرائع سے اکٹھی گئی معلومات کے مطابق 2002 سے لے کر 2025 تک 23 سالوں میں راجن پور اور رحیم یار خان میں دریائے سندھ کے کچے کے مختلف علاقوں میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف مختلف اوقات میں اپریشن کے لیے حکومت پنجاب مجموعی طور پر 19 سے 20 ارب روپے کے فنڈز جاری کر چکی ہے اور صرف محسن نقوی کے دور میں آٹھ ارب روپے کے فنڈز جاری ہوئے مگر حیران کن امر یہ ہے کہ ان اربوں روپے کے فنڈ سے کچے کے علاقے میں ایک بھی پختہ پولیس چوکی نہ بن سکی، پولیس ملازمین کے لیے کسی بھی قسم کی انتہائی بنیادی سہولتیں نہ دی جا سکیں، برائے نام جدید اسلحہ خریدا گیا اور کچہ اپریشن کے نام پر جو گاڑیاں خریدی گئیں وہ بھی پکے علاقے میں پنجاب بھر کے پولیس افسران کے زیر استعمال ہیں۔ یاد رہے کہ سابق آئی جی کیپٹن (ر) عارف نواز جب راجن پور میں ایس پی تعینات تھے تو ڈاکوؤں نے ان کی سرکاری گاڑی، وائرلیس سیٹ، حتی کہ اسلحہ بھی چھین لیا تھا اور یہ تمام چیزیں وہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں لے گئے تھے پھر بعد میں انہوں نے ایک ڈی ایس پی کو بھی اغوا کر لیا تھا جنہیں مبینہ طور پر ڈیرہ غازی ڈویژن کے تمام تھانوں سے تاوان کی رقم اکٹھی کرکے واپس لایا گیا تھا جب کہ گاڑی اسلحہ وائرلیس سیٹ کی واپسی بھی کئی دنوں بعد ہوئی تھی۔ روزنامہ قوم کو ملنے والی معلومات کے مطابق پولیس کی طرف سے محض ایک وعدہ خلافی کے بعد 16 جبکہ مجموعی طور پر اب تک 18 پولیس ملازمین کی کچے کے ڈاکووں کے ہاتھوں شہادت ہو چکی ہے۔ صادق آباد میں تعینات جنید شیخ نامی ایک اے ایس پی نے غلط منصوبہ بندی کے تحت ایک ریڈ کیا جس پر ڈاکوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل شفقت شہید ہو گیا اسی طرح سابق ڈی ایس پی صادق آباد ناصر سیال نے ایک ریڈ کے دوران چار سگے بھائیوں ایک بھتیجے اور دو دیگر برادری کے لوگوں سمیت سات ڈاکوؤں اور کچے کے مکینوں کو قتل کر دیا جبکہ یہ ڈاکو ایک اے ایس ائی ممتاز بلا کو شہید کر چکے تھے۔ ناصر سیال نے جن سات اندھڑوں کو قتل کیا ان کی لاشیں زولفقار اندھڑ کے پٹرول پمپ پر لا کر رکھی گئی اور غلام نبی اندھڑ کہ بیٹوں اور دیگر عزیز و اقارب نے پولیس کی اس کاروائی پر جشن منایا پولیس پارٹی کو ہار پہنائے جس کا تنویر اندھڑ والوں نے بہت برا منایا اور بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔ زولفقار اندھڑ اور منیر اندھڑ وغیرہ کی آپس میں دشمنی تھی کیونکہ غلام نبی اندھڑ کے بھائی کو منیر اندھڑ وغیرہ نے کالا کرکے مارا تھا اور اس کا پنچایتی فیصلہ سابق ضلع ناظم رحیم یار خان رئیس محبوب احمد نے کیا تھا جس کا چار لاکھ جرمانہ طے ہوا تھا مگر مقتول پارٹی مکر گئی کہ ہم چار لاکھ نہیں لیتے بلکہ ہم بدلہ لیں گے۔ انہی دنوں سابق ڈی پی او رحیم یار خان اسد سرفراز خان اور جانو اندھڑ کی آپس میں سیز فائر ہو جاتا ہے اور ڈی پی او نے جانو اندھڑ کو اس شرط پر اپنے علاقے میں واپس آنے کی اجازت دے دی کہ وہ ضلع رحیم یار خان میں کسی قسم کی واردات نہیں کرے گا اور نہ ہی بدامنی پھیلائے گا۔ دوسری طرف اندھڑوں نے پٹرول پمپ فائرنگ کرکے نو افراد کو مار دیا مگر ذوالفقار اور اس کا بھائی بچ گئے اور اسد سرفراز کو تبدیل کر دیا گیا۔ پھر پولیس نے سامنے آنے کے بجائے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے خفیہ طریقے سے بدلہ لینے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور عثمان چانڈیہ نامی ایک شخص کو سب انسپکٹر سلیم درگھ نے منصوبہ بندی کے تحت جانو اندھڑ سے ملوا دیا اور وہ دونوں مل کر جرم کرتے رہے اس دوران عثمان چانڈیہ کا پولیس سے بھی رابطہ رہا اور ایک دن موقع پا کر عثمان چانڈیہ نے جانو اندھڑ اور مشیر اندھڑ سمیت چار افراد کو قتل کر دیا جس کے بدلے میں ان دونوں نے عثمان چانڈیہ کو مار دیا اور عثمان چانڈیہ کے تین رشتہ دار بھی مار کر اپنا بدلہ لے لیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کی 20 ارب کہ فنڈز کی فراہمی کے باوجود پولیس نے ایک بھی قابل ذکر ڈاکو از خود مقابلے میں نہیں مارا حتی کہ غلام رسول چھوٹو کو بھی راجنپور تعیناتی کے دوران سہیل ظفر چٹھہ گرفتار نہیں کر سکے تھے اور وہ ان دنوں راجن پور چھوڑ کر بلوچستان کے علاقے میں ایک ماضی کے پولیس افیسر جو کہ پنجاب میں تعینات تھے کے بھائی کے ڈیرے پر پناہ گزین ہو گیا تھا جسے بعد میں پاک فوج کے خصوصی دستوں نے اپنی کوششوں سے سے گرفتار کروایا جو ان دنوں جیل کاٹ رہا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں