ملتان (سٹاف رپورٹر) پرائیویٹ ایجوکیشن مافیا نے حکومتی رٹ کو معقول ماہانہ ریٹ کے عوض مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور اس وقت تمام تر نجی تعلیمی ادارے اس بھاری معاوضے کے عوض قواعد و ضوابط کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے مکمل طور پر من مانیاں کر رہے ہیں۔ ایف بی آر سمیت تمام متعلقہ ادارے نجی پرائیویٹ ایجوکیشن مافیا کے پے رول پر آنے کے بعد ان کی مکمل سہولت کاری کر رہے ہیں اور پرائیویٹ ایجوکیشن سیکٹر کے 50% سے زائد ادارے بچوں سے کروڑوں روپے ماہانہ فیس بینکوں کی بجائے نقد وصول کر رہے ہیں جن کا ایف بی آر کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں۔ جبکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں منصوبہ بندی کے تحت بٹھائے گئے ایجوکیشن مافیا کے ٹاؤٹس نے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کی راہ میں مستقل بنیادوں پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں صورتحال یہ ہے کہ 95% سے زائد نجی سیکٹر کی یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی ہی یونیورسٹی ایکٹ کے سیکشن 10 کی سالہا سال سے خلاف ورزی کرتے آ رہے ہیں اور جن متعلقین نے ایکشن لینا ہوتا ہے وہ سالہا سال سے سہولت کاری کر رہے ہیں۔سیکشن 10 یہ کہتا ہے کہ نجی یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر یا مستقل ریکٹر کی تعیناتی بذریعہ سرچ کمیٹی امیدوار کی مکمل تعلیمی استعداد اور جانچ پڑتال کے بعد اپنی سفارشات گورنر پنجاب اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھیجیں گی جو ان سفارشات کی روشنی میں نجی یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر یا ریکٹر کا تقرر کرے گا مگر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پرائیویٹ ایجوکیشن مافیا کو سہولت کاری دینے کے لیے یونیورسٹی ایکٹ میں سیکشن 12 متعارف کروایا گیا۔ جس کے مطابق نجی یونیورسٹیاں قائم مقام وائس چانسلر اور ریکٹر رکھ سکتی ہیں۔ اور ان پر تعلیمی قابلیت یا مہارت کی بھی کوئی شرط نہیں۔ اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہ سیکشن 12 صرف اور صرف پرائیویٹ ایجوکیشن مافیا کو سہولت کاری دینے کے لیے رکھا گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے تعلیمی اور تدریسی معیار پر پورا نا اترنے کے باوجود متعدد پرائیویٹ یونیورسٹیاں ایسی ہیں کہ جن کے سیٹھ مالکان از خود قائم مقام وائس چانسلر یا ریکٹر بنے ہوئے ہیں اور تقریباً تمام نجی یونیورسٹیوں نے ایک ربر سٹیمپ کے طور پر پرو وائس چانسلر یا پرو ریکٹر رکھے ہوئے ہیں ۔ پنجاب حکومت کے ایک سابق وزیر تعلیم کا چند دن کے لیے ضمیر جاگا تھا اور انہوں نے ایکشن لینے کی کوشش کی تھی مگر سہولت کاروں نے چند ہی دن میں ہیوی ڈوزدے کر آئندہ مدت کے لیے ان کے ضمیر کو سلا دیا اور اس کے بعد کسی بھی وزیر تعلیم میں اس طرح کے ایکشن کی جرات پیدا نا ہو سکی۔ حتیٰ کہ موجودہ وزیر تعلیم رانا سکندر حیات بھی درجنوں شکایات کے باوجود ایکشن لینے سے مکمل طور پر قاصر ہیں اور سابق وزرائے تعلیم کی طرح نا صرف بے بس نظر آتے ہیں۔ بلکہ نجی یونیورسٹی مالکان کے مافیا نے ان کو مکمل طور پر غیر موثر اور غیر فعال کر رکھا ہے۔
