آج کی تاریخ

پولیس ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم کا ایک اور “شکار” سامنے آگیا، بڑی مچھلیوں کو کلین چٹ، چھوٹی نشانہ

ملتان (قوم ریسرچ سیل) پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم میں پنجاب پولیس جرائم پیشہ افراد چوروں اور ڈاکوئوں کو ڈیل کی صورت میں مکمل سہولت کاری کرنے لگی یہ سہولت کاری مقدمہ درج ہونے اور چالان مکمل ہونے کے بعد ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم کی تکمیل کی صورت میں دو نمبری کے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں ۔ روزنامہ قوم کو دستیاب ریکارڈ کے مطابق محمد سعید ولد محمد اقبال سکنہ رضا آباد ملتان جس کا شناختی کارڈ نمبر 36302-8557681ـ9 ہے۔اس پر لڑائی جھگڑے کے دو مقدمات درج تھے۔2022 میں تھانہ سٹی میلسی حدود میں وارداتیں کرنے والا ایک گروپ پکڑا جاتا ہے۔اس گروپ میں ایک ملزم جس کا نام ریحان ولد شوکت ہے اس پر چھ مقدمات تھانہ سٹی میلسی میں درج ہوتے ہیں ۔ان مقدمات کے نمبر 138/22٫139/22٫141/22٫142/22٫145/22٫144/22٫146/22 ہیں۔ان مقدمات میں ریحان چالان تو ہوتا ہے اور جیل بھی جاتا ہے مگر تھانہ سٹی میلسی کے کاریگر تھانے دار نے بھاری ڈیل کے بعد جب اسے چالان کیا اور جیل بھیجا تو اس کے پولیس ریکارڈ مینجمنٹ کے ریکارڈ کی تکمیل میں اس کا نام ولدیت اور سکونت تو درست درج کردی مگر شناختی کارڈ میں محمد سعید ولد محمد اقبال کا شناختی کارڈ نمبر 36202-8557681-9 درج کر دیا جاتا ہے۔ اس کا شناختی کارڈ درج ہونے سے جب بھی پولیس ریکارڈ چیک کرتی ہے تو ریحان کے مقدمات کا ریکارڈ محمد سعید کے ریکارڈ میں شو ہوتا ہے جب کہ اصل واردات کرنے والا ریحان پولیس ریکارڈ مینجمنٹ میں بالکل صاف ستھری شہرت رکھتا ہے۔پتہ چلنے پر جب متاثرہ محمد سعید ملتان میں پولیس افسران کو اپنے ریکارڈ کی تصحیح کے لیے درخواستیں دیتا ہے تو اسے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ریکارڈ آپ کا آئی جی آفس سے درست ہوگا۔اسی طرح روزنامہ قوم کی ریسرچ سیل نے جب مزید تحقیقات کی تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنوبی پنجاب کے اکثر مقدمات میں پولیس ریکارڈ مینجمنٹ میں اس قسم کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ جس سے عوامی ،سماجی حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں اور پولیس ریکارڈ مینجمنٹ کے اس سسٹم پر بھی بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس طرح غلط ریکارڈ درج ہونے سے متاثرہ نہ بیرون ملک سفر کر سکتا ہے نہ ہی کسی ہوٹل میں رہائش رکھ سکتا ہے نہ ہی اپنے ملک میں کوئی سرکاری نوکری کر سکتا ہے ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عدالت عالیہ بھی اپنے کئی فیصلوں میں پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم کو بہتر کرنے کے احکامات جاری کر چکی ہے مگر پولیس افسران کی عدم توجہی کی وجہ سے ابھی تک متعدد متاثرین در بدر کے ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس سارے سسٹم میں افسوسناک عمل یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق کئی لوگوں نے آئی جی افس میں اس طرح کے غلطیوں کو دور کرنے کے لیے بھاری رقوم کے عوض نام نکالنے کے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں جس پر وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر داخلہ پنجاب اور آئی جی پنجاب کو خصوصی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں