آج کی تاریخ

غیر قانونی سرکاری عہدے داروں کے خلاف رِٹ آف کووارنٹو کے ذریعے فیصلہ کن عدالتی کاروائی

ملتان( ریسرچ رپورٹ: میاں غفار احمد) پاکستان میں Writ of Quo Warranto اُن پانچ آئینی رِٹ پٹیشنز میں سے ایک ہے جو آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آرٹیکل 199 کے تحت فراہم کی گئی ہیں۔ یہ رِٹ ایک مؤثر قانونی ذریعہ ہے جس کے تحت ہائی کورٹ کسی بھی شخص کو غیر قانونی طور پر سرکاری عہدہ رکھنے سے روک سکتی ہے۔ “کو وارنٹو” “Quo Warranto” ایک لاطینی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے: “کس اختیار سے؟” یہ رِٹ ایسے شخص کے خلاف جاری کی جاتی ہے جو قانونی اختیار کے بغیر کوئی سرکاری عہدہ سنبھالے ہوئے ہو۔ پاکستان میں قانون کے مطابق آرٹیکل 199(1)(b)(ii) کے تحت ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ رِٹ آف کووارنٹو کے تحت سماعت کرے۔ کسی بھی شخص کی درخواست پر، ہائی کورٹ کسی ایسے شخص سے جو اس کی عملداری میں واقع ہو اور کوئی سرکاری عہدہ رکھتا ہو یا رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو، یہ وضاحت طلب کر سکتی ہے کہ وہ کس اختیار کے تحت یہ عہدہ سنبھالے ہوئے ہے۔ رِٹ آف کو وارنٹو کا مقصد کسی شخص کے سرکاری عہدے پر تقرر کے قانونی جواز کو چیلنج کرنا ہے۔ ایسے افراد کو سرکاری عہدے پر قبضہ جمانے سے روکنا جو نااہل ہوں یا تقرری اور تعیناتی کے معیار پر پورا نہ اترتے ہوئے غیر قانونی طور پر تعینات کیے گئے ہوں۔ رِٹ جاری کرنے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پوری ہونا ضروری ہیں۔ 1۔ عہدہ سرکاری ہو اور یہ عہدہ قانون یا آئین کے تحت قائم کیا گیا ہو۔ 2۔ عہدہ مستقل نوعیت کا ہو۔ عارضی یا نجی عہدہ نہ ہو۔ 3۔ شخص فی الحقیقت عہدہ سنبھال چکا ہو۔ صرف نامزدگی کافی نہیں بلکہ وہ شخص عملاً عہدے پر فائز ہو۔ 4۔ تقرری غیر قانونی یا بلا اختیار ہو۔ 5۔ کوئی بھی شخص یہ رِٹ دائر کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ذاتی مفاد کا ہونا ضروری نہیں (دیگر رِٹس کے برعکس)، کوئی بھی شہری کسی بھی اس طرح کی تقرری کو چیلنج کر سکتا ہے اور اس میں کسی نااہل شخص کو سرکاری سیکرٹری مقرر کرنا یا کوئی نااہل شخص جو رکنِ اسمبلی کے طور پر کام کر رہا ہو یا پھر کوئی شخص جو ریٹائرمنٹ کے بعد یا غیر قانونی طریقے سے سرکاری عہدہ سنبھالے ہوئے ہو۔ یا کوئی بھی وائس چانسلر یا کسی بھی یونیورسٹی کے آئین کے خلاف تعیناتی ہوئی ہو۔ پاکستان میں اہم عدالتی فیصلوں میں 1. فیڈریشن آف پاکستان بنام سعید احمد خان (PLD 1974 SC 151) سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ کوئی بھی شہری بغیر ذاتی مفاد کے، کووارنٹو دائر کر سکتا ہے۔ 2۔ محمد یٰسین بنام فیڈریشن آف پاکستان (PLD 2012 SC 132) چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کو کو وارنٹو کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس تقرری کو شفافیت اور قانونی بنیاد کے بغیر قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا۔ تاہم یہ رِٹ نجی افراد یا نجی عہدوں کے خلاف جاری نہیں کی جا سکتی۔ یہ تقرری کی صرف قانونی حیثیت کو دیکھتی ہے۔ ایک مشہور مثال ملتان میں واقع وفاقی وزارت تعلیم کے زیر انتظام این ایف سی یونیورسٹی کے سابقہ برطرف وائس چانسلر ڈاکٹر اختر کالرو کے خلاف ہائیکورٹ میں Writ of Quo Warranto دائر کی گئی تھی۔ کیونکہ وائس چانسلر ڈاکٹر اختر کالرو جو کہ صرف ایک سی وی کی بنیاد پر بغیر انٹرویو دیے اور بغیر سرچ کمیٹی کے مرحلے سے گزرے عارضی طور پر 2012 میں وائس چانسلر تعینات ہوئے تھے۔ جنہوں نے اپنے اقتدار کو طول دیتے ہوئے صدر پاکستان کی جانب سے عارضی طور پر 5 سال گزرنے کے باوجود قبضے پر برطرف کیے جانے ہر صدر پاکستان کے حکم کے خلاف 3 اسٹے آرڈر حاصل کیے۔ جن کو سیٹ نہ چھوڑنے پر این ایف سی ہیڈ آفس کی جانب سے ڈی آئی جی ملتان پولیس کو وائس چانسلر آفس خالی کروانے کے لیے لیٹر لکھا گیا مگر وہ اسٹے لے کر غیر قانونی طور پر براجمان رہے حتہ کہ 2018 تک توسیع ملنے کے باوجود بھی غیر قانونی قابض رہے۔ انہوں نے 2021 میں چپکے سے تمام اسٹے آرڈر واپس لے لیے اور غیر قانونی حیثیت سے چانسل کے عہدے پر براجمان رہے۔ جس پر ان کے خلاف جون 2023 میں Writ of Quo Warranto دائر ہوئی مگر وہ قانونی معاملات کو مینیج کرکے توسیع لیتے رہے۔ اس دوران ان کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر ایک مشہور کیس میں قاضی فائز عیسیٰ نے ان کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان سے 6 سال 4 ماہ کی ریکوری کا بھی حکم جاری کیا جو فی الحال پراسیس میں ہے۔ ان 6 سال 4 ماہ میں غیر قانونی اور برے طریقے سے برطرف ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر کالرو تنخواہوں کی مد میں 3 کروڑ 62 لاکھ، لیو انکیشمنٹ کی مد میں 68 لاکھ، تفریح الاؤنس 37 لاکھ، پٹرول 45 لاکھ، بجلی کے بلز 45 لاکھ، میڈیکل 42 لاکھ، موبائل بل 4 لاکھ، سفر کے اخراجات کی مد میں 27 لاکھ، انٹری ٹیسٹ کی مد میں 1 لاکھ، پینشن کی مد میں 21 لاکھ، ایم ایس معاوضے کی مد میں 20 لاکھ، ٹیکنالوجی معاوضے کی مد میں 38 لاکھ، آئی ایف سی شارٹ کورسز کی مد میں 22 لاکھ، ایڈمیشن بونسز کی مد میں 69 لاکھ، عید بونسز 41 لاکھ ۔ ٹوٹل 8 کروڑ 36 لاکھ غیر قانونی قبضے کی بابت واجب الادا ہیں کی ادائیگی میں وہ التوائی حربے اختیار کرتے ہوئے سفارشیں ڈھونڈ رہے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں