آج کی تاریخ

عورت، قانون، انصاف

خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کا شہر ایک ایسی سماجی فضا کا نمائندہ ہے جہاں قبائلی رسم و رواج آج بھی روزمرہ زندگی کے اصول متعین کرتے ہیں۔ یہاں ایک عورت کی آواز، اکثر اوقات دیواروں سے ٹکرا کر رہ جاتی ہے۔ مگر اس پس منظر میں اگر کوئی خاتون نہ صرف آواز بلند کرے بلکہ قانون اور انصاف کے میدان میں اس رکاوٹ کو چیر دے، تو یہ محض ایک ذاتی کامیابی نہیں بلکہ اجتماعی بیداری کی علامت بن جاتی ہے۔ زاہدہ پروین اور سیدہ فوزیہ جلال شاہ کی کہانیاں ایسی ہی جدوجہد کی روشن مثالیں ہیں جنہوں نے نہ صرف قانونی محاذ پر اہم فتوحات حاصل کیں بلکہ پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ میں خواتین کے مالی خودمختاری اور وراثتی حقوق سے متعلق نئے باب کا اضافہ کیا۔زاہدہ پروین کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں تعلیم کا چراغ جلانے والے والد کی وفات کے بعد اس نے وہ منصب سنبھالنے کی کوشش کی جو اس کے والد نے چھوڑا تھا۔ خیبر پختونخوا کے سروس قوانین کے تحت سرکاری ملازمین کے بیٹے یا بیٹی کو والد یا والدہ کی وفات کے بعد ملازمت دی جا سکتی ہے۔ زاہدہ پروین نے اسی اصول کے تحت درخواست دی اور تقرری حاصل بھی کر لی، مگر جلد ہی ضلعی تعلیمی افسر نے یہ کہہ کر تقرری منسوخ کر دی کہ چونکہ وہ شادی شدہ ہیں، اس لیے وہ والد کی مالی کفالت میں شمار نہیں ہوتیں۔ یعنی اگر ایک عورت شادی کر لے تو وہ خودمختار نہیں رہتی، اور اس کا قانونی وجود شوہر کے دائرہ اختیار میں گم ہو جاتا ہے۔یہ نکتہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا، اور ایک طویل اور تفصیلی فیصلے کے بعد عدالت عظمیٰ نے اس روایت کو چیلنج کرتے ہوئے یہ تاریخی فیصلہ دیا کہ پاکستانی عورت شادی شدہ ہونے کے باوجود مالی طور پر ایک خودمختار وجود رکھتی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ کسی عورت کا اپنی قانونی یا مالی حیثیت سے محروم ہونا اس کے ازدواجی رشتے سے مشروط نہیں ہو سکتا۔ زاہدہ پروین کے حق میں دیا گیا یہ فیصلہ بظاہر ایک سرکاری نوکری کے معاملے پر تھا، مگر اس کا دائرہ اثر تمام پاکستانی عورتوں تک پھیل گیا۔ یہ فیصلہ اس سوچ کو مسترد کرتا ہے جس کے تحت عورت کو صرف باپ، بھائی یا شوہر کی زیر نگرانی ایک تابع حیثیت میں رکھا جاتا ہے۔اسی نوعیت کی ایک اور اہم قانونی پیش رفت سیدہ فوزیہ جلال شاہ کے ذریعے سامنے آئی، جنہوں نے فیڈرل شریعت کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 203-D کے تحت درخواست دائر کی۔ ان کا موقف تھا کہ ضلع بنوں میں خواتین کو جائیداد میں وراثت کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، اور اس کے لیے مقامی سطح پر “پرچی” یا “چادر” جیسے رسم و رواج کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے تحت خواتین کو جذباتی دباؤ، معاشرتی شرمندگی یا خاندان کے دباؤ کے ذریعے جائیداد سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ فوزیہ شاہ نے عدالت میں ان رسوم کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دینے کی درخواست کی، اور عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ اگرچہ “پرچی” یا “چادر” جیسی اصطلاحات ملک بھر میں معروف نہیں، لیکن اس نوعیت کی غیر قانونی روایات ہر صوبے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔فیڈرل شریعت کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ کسی بھی رسم یا روایت کے تحت عورت کو اس کے وراثتی حق سے محروم کرنا نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ غیر آئینی اور غیر قانونی بھی ہے۔ اگرچہ عدالت نے سیدہ فوزیہ کو ذاتی طور پر ریلیف نہیں دیا — کیونکہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا تھا — مگر اس فیصلے نے ایک عمومی اصول طے کر دیا کہ ایسی تمام روایات جن کا مقصد عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ہو، وہ ناقابل قبول ہیں۔ان دونوں فیصلوں نے عورت کو صرف “عزت” یا “مظلومیت” کے استعارے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسے ایک قانونی، سماجی اور مالی وجود کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں عورت کی حیثیت اکثر و بیشتر خاندانی نظام کی طے شدہ حدود میں قید رہتی ہے، یہ فیصلے ایک سانس لینے والی ہوا کی مانند ہیں جو سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کی امید جگاتے ہیں۔زاہدہ اور فوزیہ کی جدوجہد یہ ثابت کرتی ہے کہ خواتین اب محض تماشائی نہیں رہیں — وہ قانون کو جانتی ہیں، اس کا استعمال کرنا سیکھ چکی ہیں، اور اب اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنے سے نہیں گھبراتیں۔ ان کی مثالوں سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ سماجی تبدیلی ہمیشہ صرف قانون سازی سے نہیں آتی، بلکہ وہ عوامی شعور، انفرادی ہمت، اور ادارہ جاتی حمایت کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔ یہاں سپریم کورٹ اور شریعت کورٹ کی دانشمندانہ تشریحات کو بھی سراہنا چاہیے جنہوں نے ان معاملات کو محض قانونی نکات کے طور پر نہیں بلکہ سماجی اصلاحات کی روشنی میں دیکھا۔ماضی میں پاکستان کی خواتین کو وراثت، ملازمت اور قانونی اختیارات کے حوالے سے مسلسل پسماندگی کا سامنا رہا ہے۔ ان پر نہ صرف خاندان بلکہ ریاستی ادارے بھی کئی مواقع پر بھروسہ نہیں کرتے رہے۔ یہ دو فیصلے محض دو خواتین کی جیت نہیں، بلکہ اس پورے طبقے کی فتح ہے جو صدیوں سے اپنے لیے قانونی شناخت، مالی خودمختاری، اور سماجی احترام کی تلاش میں ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ عدالتوں نے اس تبدیلی کو قانونی حیثیت دے کر نہ صرف دستور اور اسلامی اصولوں کا تحفظ کیا بلکہ ان خواتین کو وہ وقار بھی دیا جس کا وہ حق رکھتی تھیں۔ مگر یہ کافی نہیں۔ ان فیصلوں کو قانونی نصاب، سرکاری تربیت، اور انتظامی مشینری میں شامل کر کے پائیدار اصلاحات کی جانب بڑھنا ہوگا۔ معاشرتی تبدیلی کا سفر ایک دو فیصلوں سے مکمل نہیں ہوتا — یہ تو آغاز ہے۔ اصل تبدیلی تب ہوگی جب گاؤں، گوٹھ، اور شہروں میں بیٹھی ہر عورت یہ جان لے کہ وہ نہ صرف مالی طور پر خودمختار ہے بلکہ قانون اور آئین بھی اس کے ساتھ کھڑا ہے۔زاہدہ اور فوزیہ کی کہانیوں نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے، بشرطیکہ حوصلہ ہو، استقامت ہو اور قانون کی زبان سمجھی جائے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ہمارے عدالتی، آئینی اور سماجی منظرنامے میں امید کے چراغ جلا رہی ہیں۔ ان کی جدوجہد صرف ان کی ذاتی فلاح کی کہانی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کے لیے ایک اجتماعی راستے کی نوید ہے۔زاہدہ پروین اور سیدہ فوزیہ جلال شاہ کے فیصلوں سے یہ امید بندھی ہے کہ پاکستان میں خواتین کو اب قانونی طور پر ایک مکمل، خودمختار اور برابری کی سطح پر موجود شہری تسلیم کیا جا رہا ہے۔ مگر قانون کے کاغذ پر موجود ہونا اور زمین پر اس کا نفاذ، دو مختلف حقیقتیں ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں پدرشاہی نظام نسل در نسل منتقل ہوا ہو، وہاں صرف فیصلے کافی نہیں، ان پر عمل درآمد کے لیے اجتماعی کوشش، ادارہ جاتی سنجیدگی، اور سب سے بڑھ کر عوامی شعور کی بیداری ضروری ہے۔خواتین کو ان کے قانونی اور وراثتی حقوق دلانے کے لیے صرف عدالتوں پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی، میڈیا، اور مذہبی قیادت کو اس مہم میں شامل کرنا ہو گا تاکہ وہ نہ صرف ان فیصلوں کی تشہیر کریں بلکہ عوام کے اندر رویوں میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بنیں۔ اسکولوں میں حقوقِ نسواں سے متعلق بنیادی تعلیم، سرکاری دفاتر میں خواتین کے لیے آسان قانونی معاونت، اور لوکل سطح پر خواتین کے لیے مفت قانونی مشاورت جیسی سہولتیں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ان عدالتی فیصلوں کی روشنی میں خواتین کے لیے مخصوص اصلاحاتی اقدامات شروع کرے۔ وراثت کی تقسیم کے لیے ہر ضلع کی سطح پر “وراثتی حقوق سیل” قائم کیے جا سکتے ہیں جو خواتین کو دستاویزات، وکیل، اور عدالتوں تک رسائی میں مدد فراہم کریں۔ اسی طرح پدرشاہی سوچ کو بدلنے کے لیے میڈیا پر باقاعدہ عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں، جن میں ان فیصلوں کو مثال کے طور پر پیش کر کے بتایا جائے کہ شریعت اور آئین دونوں عورت کو برابری کے حقوق دیتے ہیں۔ایک اور پہلو جو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کئی خواتین کو اپنے حقوق کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا۔ سیدہ فوزیہ جیسی باشعور خواتین تو قانونی زبان جانتی تھیں، مگر ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں خواتین ابھی تک اس شعور سے محروم ہیں کہ وہ وراثت میں حصہ مانگ سکتی ہیں، یا سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کی حقدار ہو سکتی ہیں۔ ان خواتین تک یہ پیغام پہنچانا ریاست اور سول سوسائٹی دونوں کی ذمہ داری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کی داد رسی جلد ممکن ہو سکے۔ عدالتوں میں خواتین کے لیے الگ سہولت مراکز، خواتین ججز کی تعداد میں اضافہ، اور خواتین وکلاء کو خصوصی تربیت دے کر اس مشن کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر خواتین کو اعتماد ہو کہ ریاستی ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں، تو وہ دباؤ اور رسومات کو چیلنج کرنے کے قابل بن سکیں گی۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اب خواتین محض خاموشی سے ناانصافی سہنے والی نہیں رہیں، بلکہ وہ مزاحمت کر رہی ہیں، عدلیہ سے رجوع کر رہی ہیں، اور اپنے حقوق کا شعور رکھتی ہیں۔ زاہدہ اور فوزیہ کے فیصلے اس حقیقت کی علامت ہیں کہ معاشرہ اگر سست رفتاری سے ہی سہی، مگر آگے بڑھ رہا ہے۔تاہم، یہ پیش رفت اس وقت مکمل کامیابی سمجھی جائے گی جب ملک کی ہر خاتون، چاہے وہ شہری ہو یا دیہی، تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، امیر ہو یا غریب — اپنی قانونی حیثیت، مالی خودمختاری، اور شخصی احترام کو مکمل طور پر تسلیم کروا سکے۔ عدالتی فیصلے محض راستہ دکھا سکتے ہیں، اس پر چلنے کے لیے ریاست، سماج اور ہر فرد کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قانون وہ ہتھیار ہے جو صرف ہاتھ میں لینے سے طاقت نہیں دیتا — اس کے پیچھے ایک شعور، ایک نیت، اور ایک مسلسل جدوجہد ہونی چاہیے۔ زاہدہ اور فوزیہ نے وہ پہلا قدم اٹھایا ہے جو ہزاروں خواتین کے لیے ایک سمت کا تعین کرے گا۔ اب اس راستے کو روشن رکھنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں