واشنگٹن – امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کو ایک بار پھر قانونی حیثیت دے دی ہے، جس سے غیر ملکیوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کی مہم کو مزید تقویت ملی ہے۔
عدالت نے حالیہ فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کو 500,000 سے زائد تارکینِ وطن، جن میں وینزویلا، کیوبا، ہیٹی اور نکاراگوا کے شہری شامل ہیں، کی “امیگریشن پیرول” ختم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
اس سے قبل عدالت نے 19 مئی کو ایک اور حکم امتناع کو ختم کیا تھا، جس نے 300,000 وینزویلا کے شہریوں کی عارضی تحفظ شدہ حیثیت (TPS) ختم کرنے کے عمل کو روکا تھا۔
ماہرِ قانون کیون جانسن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے جدید امریکی تاریخ میں غیر شہریوں کو ملک بدر کرنے کی تیز ترین کوششیں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا:
“کوئی بھی صدر اتنی جلدی، اور بغیر مناسب عدالتی کارروائی کے، غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے پر تیار نہیں ہوا۔”
عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو خبردار کیا کہ بعض کیسز میں آئینی تقاضے، جیسے “ڈیو پراسس” یعنی عدالتی عمل کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ خاص طور پر جہاں ویزا یا پناہ گزین حیثیت ختم کرنے سے پہلے لوگوں کو سنوائی اور اطلاع دی جانی چاہیے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے 1798 کے ایک متنازع قانون (Alien Enemies Act) کا حوالہ دیتے ہوئے وینزویلا کے تارکینِ وطن کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کی کوشش کی، جن پر Tren de Aragua گینگ سے وابستگی کا الزام ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اس قانون کے اطلاق پر آئینی پابندیاں عائد کی ہیں۔
ایک علیحدہ مقدمے میں، عدالت نے اپریل میں حکم دیا کہ غلطی سے ملک بدر کیے گئے ایک شخص، کلمار ابریگو گارشیا، کو واپس لایا جائے۔ ناقدین کے مطابق، حکومت نے ابھی تک اس حکم پر عمل نہیں کیا، جو سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
