آج کی تاریخ

زکریایونیورسٹی،آڈٹ میں 35کروڑکی بےضابطگیوں کاانکشاف

ملتان (ایڈیٹرجوائنٹ ڈیسک)بہاالدین زکریا یونیورسٹی جو تعلیمی معیار اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے جانی جاتی ہے، آج کل ایک بڑے مالیاتی سکینڈل کی زد میں ہے۔ پنجاب حکومت کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ یونیورسٹی کے ترقیاتی اخراجات میں پینتیس کروڑ روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ اس معاملے میں موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال سمیت پانچ دیگر اعلیٰ انتظامی عہدیداروں کو وضاحت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ یہ ایک نہایت سنگین معاملہ ہے جو نہ صرف یونیورسٹی کی ساکھ پر سوالات اٹھاتا ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بدعنوانی اور ناقص مالیاتی نظم و نسق ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ڈاکٹر زبیر اقبال نے اپنے تحریری جواب میں واضح کیا کہ یہ بے ضابطگیاں دو سابق وائس چانسلرز منصور کریم کنڈی اور ڈاکٹر محمد علی شاہ کے ادوار میں ہوئیں، جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مالی بے قاعدگیاں ماضی میں ہوئیں تو ان پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی؟ اور اگر ان کے ذمے دار سابق عہدیداران ہیں، تو ان کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی؟ یہ معاملہ اس وسیع تر مسئلے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں سرکاری ادارے کس طرح مالیاتی بے ضابطگیوں کے باوجود چلتے رہتے ہیں، اور احتساب کا عمل اکثر صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہتا ہے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق، ترقیاتی منصوبوں میں بغیر منظوری تبدیلیاں کر کے تین کروڑ روپے کا اضافی خرچ کیا گیا۔ ٹیکنیکل سیکشن میں نو کروڑ اسی لاکھ روپے، ایڈمنسٹریٹو سیکشن میں پانچ کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں، جبکہ اس کے علاوہ چار کروڑ اسی لاکھ روپے کا نقصان بھی سرکاری خزانے کو برداشت کرنا پڑا۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ یونیورسٹی میں ترقیاتی فنڈز کا شفاف اور مؤثر استعمال نہیں ہو رہا، بلکہ انہیں مخصوص حلقے من مانی طریقے سے خرچ کر رہے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی تعلیمی ادارے میں مالی بدعنوانی سامنے آئی ہو۔ ماضی میں بھی کئی جامعات میں فنڈز کی خورد برد، جعلی بھرتیوں، اور غیر ضروری منصوبوں پر بے دریغ اخراجات کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن ہر بار ان معاملات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو لوگ ان بے ضابطگیوں میں ملوث ہوتے ہیں، وہ کسی نہ کسی طریقے سے احتساب کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں۔ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کا معاملہ بھی اگر اسی روایتی انداز میں نمٹایا گیا تو یہ ایک نہ ختم ہونے والے مالیاتی بحران کا حصہ بن جائے گا، جہاں سرکاری اداروں میں مالیاتی شفافیت ایک خواب بن چکی ہے۔یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایسے مالی اسکینڈلز کا براہ راست نقصان صرف سرکاری خزانے کو ہی نہیں، بلکہ طلبہ اور اساتذہ کو بھی ہوتا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کے غیر شفاف استعمال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انفراسٹرکچر میں بہتری کی رفتار سست ہو جاتی ہے، تدریسی معیار متاثر ہوتا ہے اور نئی تحقیق و تعلیمی ترقی کے منصوبے تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے محدود وسائل جب غلط ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تو ان کا خمیازہ ہزاروں طلبہ کو بھگتنا پڑتا ہے، جو بہتر تعلیمی سہولیات اور تحقیق کے مواقع سے محروم ہو جاتے ہیں۔یہ بھی تشویشناک بات ہے کہ مالیاتی بے ضابطگیوں کی جانچ پڑتال کے باوجود اب تک کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ اگر یہ معاملہ صرف وضاحتوں تک محدود رہا اور کوئی عملی کارروائی نہ کی گئی تو یہ کرپشن کے عادی عناصر کے لیے مزید حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا۔ حکومت کو نہ صرف اس معاملے میں شفاف تحقیقات کرنی چاہیے بلکہ اگر سابقہ وائس چانسلرز اور دیگر عہدیداران واقعی اس کرپشن میں ملوث پائے گئے تو انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جامعات کی خود مختاری اکثر بدنظمی اور مالی بے قاعدگیوں کی آڑ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے ایسی بے ضابطگیوں کی روک تھام کے لیے کوئی موثر نگرانی کا نظام موجود نہیں ہے۔ مالیاتی امور کو شفاف بنانے کے لیے ہر جامعہ میں ایک آزاد آڈٹ بورڈ قائم ہونا چاہیے جو ہر سال مالیاتی رپورٹس کو عوام کے سامنے لائے۔ اسی طرح، ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی باقاعدہ جانچ پڑتال ضروری ہونی چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ رقم کس طرح خرچ ہو رہی ہے۔بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کا حالیہ مالی اسکینڈل صرف ایک ادارے کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر تعلیمی بحران کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں بدعنوانی اور ناقص مالیاتی نظم و نسق کی وجہ سے جامعات کی ترقی رک رہی ہے۔ جب تک ان بے ضابطگیوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں ہوگی اور احتساب کا عمل مضبوط نہیں بنایا جائے گا، اس وقت تک پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکیں گے۔اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت پنجاب اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ محض وضاحتیں طلب کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ جو افراد بے ضابطگیوں کے ذمہ دار ہیں، انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی بھی جامعہ میں مالیاتی امور میں اس طرح کی بدعنوانی نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیوں کے مالی معاملات میں شفافیت کے لیے سخت اصلاحات متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کے میدان میں ترقیاتی منصوبے اپنے اصل مقصد کے لیے استعمال ہو سکیں اور ملک کی جامعات تحقیق، تدریس اور ترقی کے حقیقی مراکز بن سکیں۔بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں مالی بے ضابطگیوں کا معاملہ ایک آزمائش ہے کہ آیا ہم اپنے تعلیمی اداروں میںبدعنوانی کے خلاف سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ اگر اس سکینڈل کو روایتی انداز میں دبا دیا گیا اور کوئی سخت کارروائی نہ کی گئی تو اس سے مزید تعلیمی اداروں میں بدعنوانی کو فروغ ملے گا۔ یہ وقت بے حس رویے کا نہیں، بلکہ عملی احتساب کا ہے تاکہ تعلیمی ادارے کرپشن سے پاک ہو کر اپنی اصل علمی و تحقیقی خدمات انجام دے سکیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں