اسرائیل نے تکبر میں آکر ایران کے خلاف جنگ چھیڑ تو دی مگر ایران کے مضبوط ترین حملوں میں اسرائیل کی تباہی اور دجالی دارالحکومت میں ملبوں کے ڈھیر نے اسرائیل کو جلد اس بات سے آگا ہ کر دیا کہ حالات اُن کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں ، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا یہ بیان کہ آج کی صبح مشکل ہے ثابت کر رہا ہے کہ ایران نے پوری دنیا کے سامنے جو دعویٰ کیا وہ پورا کر کے دکھایا۔ اسرائیل نے امریکہ سے اس جنگ میں با ضابطہ طور پر شامل ہونے کی درخواست کر دی۔ لیکن سننے میں آیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیلی درخوا ست کو مسترد کر دیا ہے۔ اس وقت یمنی حوثی، ایران، حماس اور حزب اللہ مل کر اسرائیل کو گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسرائیل کی چیخیں پوری دنیا میں سنائی دی گئی ہیں۔ نیتن یاہو ملک سے فرار ہوا اور ایتھنز میں اس کا طیارہ دیکھا گیا۔
حالات میں اس طرف جارہے ہیں کہ ایران کسی بھی وقت ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کر سکتا ہے کیونکہ ایران نے واضح طور پر بیان دیا ہے کہ وہ ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے (NPT)سے الگ ہو سکتاہے ، اس دھمکی کے فوری بعد اقوام متحدہ کے چوہدری نگرانی کے ادارے آئی اے ای اے کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ جبکہ ایران امریکہ ایٹمی مذاکرات بھی منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق ایران کے پاس اب بھی اتنا افزودہ مواد موجودہے کہ اگر اسے مزید خالص کیاجائے تو تقریباً 10 جوہری بم تیار کئے جا سکتے ہیں۔تاہم ایران نے ہمیشہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کیلئے ہے۔
ایران پر حالیہ حملہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس میں امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل سمیت دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ مارچ کے مہینے میں بھی امریکی صدر کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی کہ اگر ایران نے جوہری پروگرام پر معاہدہ نہ کیا تو اس پر بمباری ہو سکتی ہے۔ حالیہ صورت حال میں امریکہ ایک جانب تو جنگ سے دور رہنے کے دعوے کر رہا ہے تو دوسری جانب اپنے اڈوں کے ذریعے اسرائیل کی مدد بھی کر رہا ہے اور اُسے اسلحہ بھی فراہم کیا جارہا ہے۔
مگر ایران کی جانب سے دانشمندانہ طریقے سے صرف اسرائیل کی ملٹری تنصیبا ت کو نشانہ بنایا اور اب تک کسی بھی امریکی ملٹری تنصیب یا اُس کے اردگرد کسی بھی مقام کو نشانہ نہیں بنا یا گیا۔اگر ایسا ہوتا تو امریکہ براہ راست اس جنگ میں شامل ہو جاتا جو کہ ایران کسی صورت افورڈ نہیں کر سکتا۔ اس وقت ایران دنیا کا واحد ملک بن چکا ہے جس نے F-35 طیارے گرائے ہیں گو کہ اسرائیل اس کی تردید کررہا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ ایرانی وزیر خارجہ نے بھی اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک ہے اور اس کو خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو امریکی تنصیبات پرحملوں سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔ مشرق وسطی کی صورتحال سے عرب ممالک بھی شدید پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ اگر یہ جنگ مزید پھیلی تو دیگر ممالک کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ایران اور اسرائیل کا تنازعہ سفارتی سطح پر حل ہونا چاہئے مگر برابری کے ساتھ کیونکہ اسرائیل نے حالیہ ایران جنگ کے باوجود غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور گزشتہ 24 سے 36 گھنٹوں کے دوران درجنوں معصوم اور نہتے فلسطینی شہریوں کو شہید کر دیا ہے اگرعالمی رہنما دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے خواہشمند ہیں تو اس کا پہلا ایجنڈا غزہ میں امن اور اسرائیلی حملوں کی روک تھام ہونا چاہئے۔ اس کے بعد مزید کوئی بات ہو اس وقت مشرق وسطیٰ بڑی تباہی کے دہانے کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ جس کو مل کر ہی روکا جا سکتا ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پھر ایک تیسری عالمی جنگ شروع کا خدشہ موجود ہے۔
