ملتان (سٹاف رپورٹر) ملک بھر کے تعلیمی اداروں خاص کر یونیورسٹیوں میں رجسٹرار، خزانچی اور کنٹرولرز کی جانب سے یونیورسٹی کی آفیشل کار پرائیویٹ طور پر استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر کی تمام یونیورسٹیوں کے رجسٹرار، خزانچی اور کنٹرولر کے علاوہ ملک بھر کے سرکاری افسران سرکاری گاڑی کو پرائیویٹ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو سکول چھوڑنے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں جبکہ ان سرکاری افسران کی بیویاں شام کے اوقات میں پنجاب کی گرین نمبر پلیٹ اور وفاق کی بلیو نمبر پلیٹ کی حامل گاڑیوں پر مختلف شاپنگ سنٹرز میں شاپنگ کرتی نظر آتی ہیں جو کہ سراسر غیر قانونی ہے مگر یونیورسٹی کے ریذیڈنٹ آڈیٹر حضرات اپنے ان افسران سے گٹھ جوڑ کرکے ان گاڑیوں کے پرائیویٹ استعمال کو نہیں روک پاتے۔ گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کے ریذیڈنٹ آڈیٹرز کی نشاندہی اور ٹرانسپورٹ مینجمنٹ کمیٹی کی منظوری کے بعد یونیورسٹی کی سابق کنٹرولر رضوانہ تنویر رندھاوا کو 3 سال تک سرکاری کار کو اپنے پرائیویٹ پک اینڈ ڈراپ کے لیے استعمال کرنے کی مد میں 2 لاکھ 49 ہزار کی ریکوری ڈال دی گئی اور لکھے گئے لیٹر میں کہا گیا کہ جو آپ نے تقریباً 10000 کلومیٹر گاڑی اپنے پرائیویٹ مقاصد کے لیے استعمال کی ہے اس کی مد میں تقریباً 2 لاکھ 49 ہزار روپے یونیورسٹی کے اکاؤنٹس میں جمع کروا کر اس کی رسید شعبہ ٹرانسپورٹ میں جمع کروائیں۔ وفاق کے زیر انتظام ملتان کی ایک یونیورسٹی کے کنٹرولر جو کہ پہلے چنگ چی پر آیا جایا کرتے تھےمگر 5 سال پہلے کنٹرولر کا عارضی عہدہ حاصل کرتے ہی سرکاری گاڑی کو سرکاری کاموں میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی کاموں میں بھی استعمال کرنے لگے اور ہفتہ وار سرکاری گاڑی کو اپنے آبائی گاؤں ضلع فیصل آباد جانے کے لیے بھی دھڑلے سے استعمال کرنے لگے۔
