وائے نصیب، ہمارے قائدین بوڑھے ہو گئے مگر بڑے نہ ہو سکے۔ قوم کو جمع تو نہ کر سکے البتہ زندگی بھر تقسیم اور تحلیل ہی میں جتے رہے۔ ایک قائد نے مذاکرات کی ٹیبل دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک پاکستان لے لیا اور آج ہمارے قائدین کا ازلی بھوک میں مبتلا ریوڑ جہاں جہاں سے بھی گزرتا جاتا ہے، ادھ کھائے پتے اور میگنیاں بطور نشانی پیچھے چھوڑتا جاتا ہے۔ یہ کالم 8 سال قبل اس دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے لکھا تھا مگر آج حالات ان دنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بدتر ہو چکے ہیں۔ اب تو لاہور سے آدھا پنجاب کھلے عام ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے غیر فعال ہونے سے معاملات بگڑ رہے ہیں اور کوئی بھی اس بڑھتی ہوئی اختیاراتی دوری کو کم کرنے کو تیار نہیں۔۔۔ حاجی صاحب میرے پرانے دوست ہیں۔ پنجاب کے دور دراز کے ایک پسماندہ ضلع کی پسماندہ ترین تحصیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ان کے آبائو اجداد مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آباد ہوئے۔ گزشتہ دنوں لاہور آئے جہاں انہوں نے اپنی آنکھوں کا معائنہ اسی ڈاکٹر سے کرانا تھا جس سے میرا بھی علاج ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک کی طرف جاتے ہوئے اچانک انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور احتجاجی شاعری کر ڈالی۔ چند مصرع یاد رہ گئے جو کچھ یوں تھے ۔پاکستان کا مطلب کیا،، لاہور نوں بنائی جا،، سارے ملک کے مٹی پا، لاہوریاں نوں رجائی جا،، مسائل اوتھے وسائل ایتھے،، لاہور نوں سجائی جا،، ایتھے اورنج بنائی جا،، اودھر رنج و دھائی جا،، چل اوئے بندیا واپس جا ایتھے اوکھا لینا ساہ،، میرے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ حاجی صاحب نہ تو باقاعدہ شاعری کرتے ہیں نہ ہی انہیں شعر و سخن سے کوئی دلچسپی رہی ہے۔ انہیں تو کوئی شعر ڈھنگ سے یا بھی نہ ہوگا البتہ پرانے گانے شوق سے سنتے ہیں۔ خود سے سوال کیا کہ یہ تبدیلی کیا تو اندر سے جواب ملا کہ یہ ان کے دل کی بھڑاس تھی جو ردھم کے ساتھ زبان پر آ گئی۔ میں نے اس اچانک شاعری پر سوال کیا۔ جناب اچانک رد عمل کیوں کر۔ انہوں نے سڑک کے کنارے لگے کھمبوں پر اشتہاری مہم کے سلسلے میں پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی کی جانب سے سینکڑوں کی تعداد آویزاں سٹیمرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا۔ پی ایچ اے کے سلوگن پڑھیں Like, Love, Live Lahore سوال کیا۔ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی صرف چھ سال شہروں تک محدود کیوں ہے؟ پنجاب کا نام استعمال کرکے سارے فنڈز، ساری توجہ صرف لاہور کے لئے؟ یہ اتھارٹی کم از کم 8 سال قبل قائم ہوئی مگر ڈویژن کی سطح پر ابھی بھی دفاتر مکمل نہیں ہوئے۔ ڈسٹرکٹ لیول تو دور کی بات۔ابھی تکرار جاری تھی کہ ہم آئی سرجن کے کلینک پہنچ گئے تو مجھ سے حاجی صاحب کے بیٹے نے سوال کیا۔ ڈاکٹر صاحب کتنی فیس لیں گے میں نے بتایا کہ غالباً 1500روپیہ ۔ جس پر حاجی صاحب کہنے لگے کہ اس حساب سے آپ کو یہ چیک آپ تقریباً 1700 روپے میں پڑےگا کیونکہ گھر سے یہاں تک 200 کا پٹرول آنے جانے پر صرف ہو جائے گا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مجھے یہی معائنہ 7700 میں پڑے گا۔ آپ حساب لگا لیں۔ 1800 تو لاہور آنے جانے کا کرایہ، یہاں دو دن اوسط درجے کے ہوٹل میں قیام کیلئے دو دن کا 3 ہزار صرف کمرے کا کرایہ۔ قیام اور صرف قیام، اس میں طعام شامل نہیں اور پھر رات کو اچانک پولیس کی چیکنگ۔فرمانے لگے جناب یہ معائنہ جو آپ 1700 میں -کرائیں گے جب یہی معائنہ کرا کر میں واپس اپنے یہی گھر پہنچوں گا تو 8 ہزار خرچ ہو چکا ہوگا۔ پھر آپ کے تو تین گھنٹے اور میرے کم از کم 72 گھنٹے اس معائنے پر صرف ہوں گے۔ یہی فرق ہے لاہور کا اور دور دراز کے پسماندہ علاقوں کا جہاں طبی سہولتوں سمیت اوسط درجے کی شہری سہولتوں کا بھی تصور نہیں۔ میرے لیے یہ تقابلی جائزہ بالکل مختلف اور انوکھا مگر بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ دور دراز کے علاقوں کے لوگ ان شکایات کے حوالے سے بہت حد تک سچے ہیں اور ان کی باتوں میں بہت وزن مگر ہم بڑے شہروں کے رہنے والوں کو اس کا ادراک نہیں۔ قائد اعظم کے بعد ہمیں قائد کے تربیت یافتہ لوگوں کی اشد ضرورت تھی مگر ہم اس معاملے میں بحیثیت قوم بدقسمت ہی رہے۔ ہمیں سیاستدانوں سے کوئی بھی قائداعظم جیسا نہ مل سکا۔ 180 ڈگری کا فرق ہے قائد اعظم محمد علی جناحؒ میں اور آج کے ان نام نہاد قائدین کے ریوڑ میں۔ قائد اعظمؒ کبھی اپنی ذات کے حصار میں مقید نہ ہوئے اور ہمارے آج کے قائدین کبھی اپنی اپنی ذات کے حصار سے باہر ہی نہ نکل سکے۔
