ستمبر 2025 کے سیلاب نے پنجاب کو ایک بار پھر یہ یاد دلایا ہے کہ قدرتی آفات میں اصل تباہی صرف پانی نہیں لاتا—بروقت، شفاف اور یکساں معلومات کی عدم دستیابی بھی تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ دستیاب غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 41 میں سے 24 اضلاع متاثر ہوئے، چار لاکھ ایکڑ زرعی زمین زیرِ آب آئی، دو ہزار سے زائد دیہات ڈوب گئے، اور 35 سے 40 لاکھ کے درمیان آبادی نے نقلِ مکانی کی۔ یہ تصویریں ہمیں ملکی و غیرملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس سے ملتی ہیں؛ مگر دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی سطح پر اب تک کوئی جامع، باقاعدہ اور حتمی ڈیٹا جاری نہیں کیا گیا۔ یہی وہ خلا ہے جہاں پالیسی کی کمزوریاں، امدادی ترجیحات اور سیاسی بیانیے ایک دوسرے سے الجھ جاتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کا زور اس بات پر ہے کہ سیلاب کی جغرافیائی حد اور زرعی نقصان، خاص طور پر نقد آور فصلوں پر، توقع سے کہیں زیادہ ہے—جبکہ سرکاری سطح پر خاموشی یا ادھوری، متفرق اپڈیٹس یہ تاثر دیتی ہیں کہ متاثرہ آبادی اور رقبے کی حقیقی وسعت ابھی تک باضابطہ طور پر ہیڈکاؤنٹ نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ضلع وار ڈیمیج اسیسمنٹ کی رفتار سست کیوں ہے؟ سیٹلائٹ نقشہ بندی، جی آئی ایس گرِڈز اور یونین کونسل سطح کے ڈیٹا کو یکجا کر کے روزانہ کی بنیاد پر کھلی رسائی کیوں فراہم نہیں کی جا رہی؟ آبپاشی، نہریں اور باندھ کہاں اور کب دباؤ میں آئے، کب کتنے کیوسک پانی چھوڑا گیا، اور پیشگی وارننگ کس درجے تک مقامی آبادی تک پہنچی—ان تمام نکات پر وضاحت کیوں مفقود ہے؟ادارہ جاتی کمزوری کا ایک اور پہلو آبادکاری اور امداد کے فوری اشاریوں کی عدم دستیابی ہے: کتنے ریلیف کیمپ فعال ہیں، ان کی اصل گنجائش کیا ہے، پینے کے پانی، صحت و خوراک کی فراہمی کہاں کمزور پڑی، اور تعلیمی اداروں میں بطور عارضی پناہ گاہ استعمال کے کیا اثرات ہوں گے؟ اگر میڈیا کہتا ہے کہ نقل مکانی چار لاکھ کے قریب ہے تو سرکاری مشینری کے پاس ناموں، دیہات اور خاندانوں کی درستی شدہ فہرستیں کیوں نہیں؟اس سے جو مطالبہ فی الفور ذہن میں آتا ہے وہ صوبائی و وفاقی سطح پر ایک مشترکہ، اوپن ڈیٹا ڈیش بورڈ فوراً فعال کیا جائے جس میں ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر متاثرہ دیہات، زیرِ آب رقبہ، فصلوں اور مال مویشیوں کے نقصان، اور نقل مکانی کے درست اعداد روزانہ بنیاد پر شائع ہوں—اور ان کی تیسری فریقہ تصدیق بھی ہو۔ جب تک حکومت اپنی زبان میں ایک واضح عددی کہانی پیش نہیں کرتی، میڈیا کی کہانی ہی زمینی حقیقت سمجھی جائے گی؛ اور دونوں کے بیچ یہ تضاد ہمارے سب سے بڑے انسانی بحران—متاثرہ شہریوں—کو اعداد و شمار کی دھند میں گم کر دے گا۔دریائے چناب کی بپھری لہریں جب جلال پور پیروالہ تحصیل کے کناروں سے ٹکرائیں تو محض کھیت کھلیان ہی نہیں ڈوبے، انسانی زندگیاں بھی ایک ایسے المیے کا شکار ہوئیں جس کی شدت کو الفاظ میں سمیٹنا دشوار ہے۔ پوری تحصیل کی آبادی براہِ راست متاثر ہوئی—گھر بار چھوڑتے لوگ، بیل گاڑیوں اور کشتیوں میں لدی خواتین، بچے اور بزرگ، ایک طرف تو پانی کے دباؤ سے گھبرا کر نکلتے دکھائی دیے اور دوسری طرف انہیں اس یقین دہانی کی ضرورت تھی کہ ریاست ان کی حفاظت اور بحالی کے لیے موجود ہے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق جلال پور پیروالہ کے 51 دیہات زیر آب آ گئے۔ ہزاروں افراد کو راتوں رات اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق تین لاکھ سے زائد افراد اور ان کے مویشیوں کا ایڈوانس انخلا ممکن بنایا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انخلا بھی ایک اذیت ناک تجربہ رہا۔ کشتیوں کے الٹنے سے ہلاکتیں ہوئیں—چار بچوں سمیت پانچ افراد کی جانیں گئیں۔ ان گھروں میں ماں کی آغوش اجڑ گئی اور بچوں کی کل کائنات لمحوں میں ختم ہو گئی۔وہاڑی پل کو کھولنے کا فیصلہ بظاہر شہر کو بچانے کے لیے کیا گیا، لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ پانی کا رخ دیہات کی طرف موڑ دیا گیا۔ بہادر پور، صبرا، کنہوں اور دیگر مواضعات اچانک بپھرے ہوئے پانی کی لپیٹ میں آ گئے۔ ایک طرف شہر نسبتاً محفوظ رہا، دوسری طرف دیہی آبادی اپنی زمین، فصلوں اور مکانوں سمیت پانی کے حوالے ہو گئی۔ یہ وہ سوال ہے جو انتظامیہ اور ریاست کو آئندہ برسوں میں اپنے سامنے رکھنا ہوگا: کیا شہروں کو بچانے کے لیے دیہات ہمیشہ قربان کیے جاتے رہیں گے؟فلڈ کیمپس میں اگرچہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ 968 موبائل کلینکس اور میڈیکل ریلیف کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں، حاملہ خواتین کے لیے ایمبولینسز اور بچوں کے لیے ویکسینیشن کا انتظام موجود ہے، لیکن متاثرہ افراد کی گواہی کچھ اور بتاتی ہے۔ خیموں میں جگہ کی تنگی، پینے کے پانی کی قلت، اور مویشیوں کے لیے چارہ نہ ہونا سب سے بڑا بحران بن چکا ہے۔ عورتوں اور بچوں کے علاج کے لیے ادویات کی دستیابی اگرچہ بیانات میں ہے، لیکن عملاً بہت سے کیمپوں میں بنیادی سہولتیں ناکافی ہیں۔یہ انسانی المیہ ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک سماجی بحران بھی ہے۔ متاثرین کی سب سے بڑی تکلیف بے گھری اور غیر یقینی مستقبل ہے۔ کیا ان کے گھروں کی بحالی کے لیے شفاف منصوبہ بندی موجود ہے؟ کیا زمینوں پر دوبارہ کاشت ممکن بنانے کے لیے ریاست فوری ریلیف پیکج دے گی؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا شہروں اور دیہات کے درمیان یہ غیر مساوی رویہ ہمیشہ برقرار رہے گا؟جلال پور پیروالہ کے یہ مناظر اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست اور اس کے ادارے کب تک آفات کے بعد محض ریسکیو پر اکتفا کریں گے؟ کیا ہم کبھی ایسی پالیسی بنانے میں کامیاب ہوں گے جس میں انسان کو صرف زندہ بچانا ہی نہیں بلکہ باعزت زندگی دینا بھی اولین ترجیح ہو؟حکومت اور اداروں کی کارکردگی اس بار کے سیلاب میں ایک بار پھر کڑی آزمائش سے دوچار نظر آئی۔ سب سے بڑی کمزوری یہ دکھائی دی کہ ریاستی مشینری زیادہ تر ہنگامی ردعمل تک محدود رہی جبکہ پیشگی منصوبہ بندی اور مستقل تحفظی حکمت عملی کے میدان میں سنجیدہ خلا موجود رہا۔ جلال پور پیروالہ کے تناظر میں یہ خلا اور بھی نمایاں ہو گیا۔ اگر واقعی جدید ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ امیجنگ اور ڈرونز کے ذریعے سیلابی صورت حال پر نظر رکھی جا رہی تھی تو پانی کے دباؤ کو بروقت پیش گوئی کرکے انخلا کے متبادل راستے کیوں نہ بنائے گئے؟ وہاڑی پل کو کھولنے کا فیصلہ آخری لمحے پر کیوں کیا گیا اور اس کے ممکنہ اثرات سے دیہی آبادی کو پہلے سے کیوں نہ آگاہ کیا گیا؟اعداد و شمار میں تضاد بھی حکومت کی کمزوریوں میں سے ایک بڑا پہلو ہے۔ کہیں 21 لاکھ، کہیں 35 لاکھ اور کہیں 42 لاکھ متاثرین کے اعداد دیے گئے۔ این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور ضلعی سطح کے اعداد و شمار ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے۔ اس تضاد کا سب سے بڑا نقصان متاثرین کو ہوتا ہے۔ امدادی سامان کی تقسیم غیر شفاف اور غیر منصفانہ ہو جاتی ہے۔ کئی مستحق خاندان فہرستوں سے باہر رہ جاتے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں دوہری رجسٹریشن کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پالیسی سطح پر شہروں کو بچانے کے لیے دیہات کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ جلال پور پیروالہ کے درجنوں دیہات کی طرف پانی کا رخ موڑنا اسی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ حکومت یہ سوال پوچھنے سے گریز کرتی ہے کہ آخر دیہی عوام کے گھروں، زمینوں اور مویشیوں کو شہری انفراسٹرکچر کے مقابلے میں ہمیشہ کم اہم کیوں سمجھا جاتا ہے۔ریلیف کی تقسیم میں بھی ناہمواری نمایاں ہے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب سے فلڈ کیمپس اور طبی سہولتوں کے اعلانات تو خوش آئند لگتے ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کیمپوں میں جگہ کی کمی، پینے کے پانی کا فقدان اور خواتین کے لیے سہولتوں کی غیر موجودگی نے متاثرین کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ مویشیوں کے لیے چارے کے انتظامات کو بھی پس منظر میں ڈال دیا گیا ہے، حالانکہ دیہی معیشت میں یہ سب سے بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔سب سے سنگین پہلو یہ ہے کہ بحالی کی کوئی مستقل اور ادارہ جاتی پالیسی سامنے نہیں آ رہی۔ زرعی نقصانات کا درست حساب، مکانات کی تعمیر نو اور معاشی بحالی کے لیے شفاف فنڈز کی تقسیم کا کوئی واضح طریقہ کار نظر نہیں آتا۔ اکثر متاثرین برسوں تک اپنے نقصان کے ازالے کے انتظار میں رہتے ہیں اور ہر نیا سیلاب انہیں ایک بار پھر اسی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔جلال پور پیروالہ کا المیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کا کردار زیادہ تر ریسکیو آپریشنز اور پریس کانفرنسز تک محدود رہا ہے۔ اعداد و شمار کے تضاد، بروقت منصوبہ بندی کی کمی اور دیہی آبادی کو ثانوی حیثیت دینے کی روش نے انسانی بحران کو اور گہرا کر دیا ہے۔ اگر طرز حکمرانی میں تبدیلی نہ آئی تو آنے والے سیلاب بھی یہی سوال اٹھاتے رہیں گے کہ ہم محض زندگیاں بچانے والی ریاست ہیں یا متاثرہ لوگوں کو باعزت زندگی دینے والی بھی۔
