آج کی تاریخ

کینسر کا ڈیٹا: اندھیرے میں سفر یا روشنی کی پہلی کرن؟

بالآخر وہ دن آ ہی گیا جس کا انتظار پاکستان کی صحت عامہ سے وابستہ حلقے برسوں سے کر رہے تھے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے قومی ادارۂ صحت (NIH) کی تنظیمِ نو سے متعلق بل پر دستخط کے بعد اب پاکستان میں ایک قومی کینسر رجسٹری قائم کی جائے گی، جس کا کام ملک بھر میں کینسر کے مستند اور مصدقہ اعداد و شمار کو مرکزی سطح پر محفوظ رکھنا ہو گا۔
بظاہر یہ خبر سادہ لگ سکتی ہے — ایک اور قانون، ایک اور ادارہ، ایک اور ڈیٹا بیس — لیکن درحقیقت یہ اقدام پاکستان کے صحت کے شعبے میں ایک دیرینہ خلا کو پُر کرنے کی جانب پہلا سنجیدہ قدم ہے۔ ایک ایسا خلا جس نے نہ صرف لاکھوں مریضوں کو اندھیرے میں رکھا بلکہ صحت سے متعلق پالیسی سازی، علاج معالجے کی منصوبہ بندی، اور احتیاطی تدابیر کی مہمات کو بھی تخمینوں اور قیاس آرائیوں کے سہارے چھوڑ رکھا تھا۔
اب تک پاکستان میں کینسر کے حوالے سے جو بھی معلومات دستیاب تھیں، وہ زیادہ تر پنجاب کینسر رجسٹری پر مبنی تھیں، جو کہ صرف لاہور اور وسطی پنجاب کے چند علاقوں تک محدود ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ انتظام گلوبل کینسر آبزرویٹری نے 2020 میں پاکستان میں 1,78,388 کیسز رپورٹ کیے تھے، مگر یہ اعداد و شمار جزوی رجسٹری پر مبنی تھے، اور ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے یہ تخمینہ ایک کھلی کم فہمی تھی۔ جب ڈیٹا محدود ہو، تو پالیسیاں نابینا بن جاتی ہیں — نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ احتیاطی مہمات کارگر ہوتی ہیں، نہ علاج کے وسائل درست جگہ پہنچتے ہیں، اور نہ تحقیق کو وہ مواد میسر آتا ہے جو کسی مہلک بیماری کی جڑ تک پہنچنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔
قومی کینسر رجسٹری اس سارے سسٹم میں ایک نقطۂ آغاز ہو سکتی ہے — اگر اسے خلوص، حکمت، اور مستقل مزاجی کے ساتھ فعال کیا جائے۔ اگر رجسٹری واقعی مریضوں کی تشخیص، اموات، صحتیابی اور ان کی عمر، جنس، مقام اور دیگر عوامل پر مبنی ڈیٹا جمع کرے، تو یہ پاکستان کی صحتِ عامہ کی تاریخ میں ایک انقلابی موڑ ہو سکتا ہے۔ پالیسی سازوں کو ایک ایسی ٹھوس بنیاد میسر آ سکتی ہے جس پر وہ احتیاطی پروگرام تشکیل دے سکیں، بجٹ کا درست تعین کر سکیں، اور بڑے شہروں سے باہر بھی آنکولوجی مراکز کا جال بچھا سکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، تحقیق کے شعبے میں بھی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ ہمیں یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ کون سے عوامل — جیسے طرزِ زندگی، ماحولیاتی آلودگی، یا موروثی مسائل — کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز میں کس حد تک کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی تحقیقاتی ادارے اور ڈونر تنظیمیں، جو تاحال پاکستان کے غیر منظم اور ناقص ڈیٹا کی وجہ سے محتاط تھیں، اب شاید یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ ہو سکیں۔
مگر…
یہ ساری امیدیں ایک “اگر” پر ٹکی ہیں — اگر یہ رجسٹری محض کاغذی کارروائی نہ بنے، اگر یہ صرف دارالحکومت کی فائلوں میں بند نہ رہے، اور اگر یہ وہی انجام نہ پائے جو اس سے پہلے کے کئی ایسے منصوبوں کا ہو چکا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رجسٹری نقشہ فراہم کرتی ہے، مگر نقشہ صرف اسی وقت کارآمد ہوتا ہے جب نہ صرف سفر کے لیے گاڑی موجود ہو، بلکہ وہ قائد بھی ہو جو اس گاڑی کو صحیح سمت میں لے جا سکے۔
پاکستان کا صحت کا نظام کئی دہائیوں سے ناتواں، غیر منظم، اور عارضی امداد پر منحصر رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں اب بھی لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کے نہ تو میڈیکل ریکارڈز ہیں، نہ بروقت تشخیص کی سہولت، اور نہ ہی کینسر کے ابتدائی مراحل میں اس کی پہچان۔ اگر اس قومی رجسٹری کا ڈھانچہ ان علاقوں تک رسائی حاصل نہیں کرتا، تو یہ ایک اور شہری و دیہی خلیج پیدا کرے گا — جہاں شہری علاقوں کے ڈیٹا پر پالیسی سازی ہوگی، اور دیہی پاکستان ایک بار پھر نظرانداز کر دیا جائے گا۔
پھر سب سے اہم نکتہ مریض کی رازداری کا ہے۔ بل میں اس کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ عملی طور پر اس کا تحفظ کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ کیونکہ اگر شہریوں کو یہ خدشہ ہو کہ ان کی بیماریوں کا ڈیٹا نجی، کاروباری یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، تو وہ کبھی رجسٹری کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔ اعتماد کی فضا قائم کیے بغیر، ڈیٹا کا حصول بھی بےمعنی ہوگا۔
اس سب کے ساتھ، ایک اور خطرہ موجود ہے — وہ یہ کہ کہیں یہ رجسٹری محض ایک فہرست نہ بن جائے، جس میں مرنے والوں کے نام، بیمار پڑنے والوں کے اعداد و شمار، اور علاج کے بغیر بےبس لوگوں کا نوحہ لکھا جائے۔ رجسٹری کا قیام ایک شاندار قدم ہے، مگر اگر اس کے ساتھ کینسر کی اسکریننگ پروگرامز کا دائرہ وسیع نہ کیا جائے، آنکولوجی سینٹرز صرف بڑے شہروں میں محدود رہیں، اور تکلیف دہ مرحلے میں مریضوں کو راحت دینے والی پالی ایٹیو کیئر کا کوئی انتظام نہ کیا جائے — تو یہ اصلاح نہیں، صرف اندھیرے میں دستاویزات ترتیب دینے جیسا عمل ہو گا۔
کینسر ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں صحت کے وسائل کم اور آبادی زیادہ ہے۔ اگر پاکستان نے فوری طور پر مؤثر علاج، بروقت تشخیص، اور آگاہی پر مبنی پالیسیاں نافذ نہ کیں، تو یہ قومی رجسٹری صرف ایک اندوہناک قومی مرثیہ بن کر رہ جائے گی — جہاں ہم ہر سال تعداد گنیں گے، ماتم کریں گے، اور پھر بھول جائیں گے۔
مگر ابھی امید کی گنجائش باقی ہے۔
ابھی ہم اس دہانے پر ہیں جہاں ایک سنجیدہ فیصلہ پاکستان کی صحت عامہ کی سمت بدل سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اعداد و شمار محض ہندسوں کا کھیل نہیں — ہر نمبر ایک زندہ انسان کی کہانی ہے، ایک خاندان کا دکھ، ایک ماں کی التجا، ایک باپ کا قرض، ایک بچے کا سوال۔
اگر ہم نے اس رجسٹری کو وہ توجہ دی جو اس کا حق ہے — وسائل دیے، تربیت یافتہ عملہ دیا، دیہی و شہری فرق کو ختم کیا، ڈیجیٹل نظام کو محفوظ بنایا، اور مریض کی عزتِ نفس کو مقدم رکھا — تو یہی رجسٹری ہمیں بیماری کے خلاف پہلی باقاعدہ جنگ کا محاذ فراہم کرے گی۔
یہ وقت ہے صرف رجسٹری بنانے کا نہیں — رجسٹری پر عمل کرنے کا ہے۔
نقشہ ہاتھ میں آ چکا ہے،
اب دیکھنا یہ ہے کہ سفر کا ارادہ بھی ہے یا نہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں