پاکستان میں شہریوں کے ذاتی کوائف کے حالیہ انکشافات نے ایک بار پھر یہ سوال زندہ کر دیا ہے کہ کیا ریاست خود اپنی ہی رعایا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے؟ ابھی یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو ہزاروں شہریوں، سرکاری اہلکاروں اور حتیٰ کہ وزراء تک کی حساس معلومات — جن میں ان کے شناختی کارڈز، موبائل سمز، کال ریکارڈز، سفری تاریخ، اور شناختی دستاویزات شامل ہیں — انٹرنیٹ پر برائے فروخت ہیں۔ قیمت؟ صرف 500 روپے۔ یہ ایک ریاستی شرمندگی سے زیادہ، اجتماعی اخلاقی دیوالیہ پن کی گھنٹی ہے۔
کسی بھی ریاست کو اپنے شہریوں کی ذاتی معلومات جمع کرنے سے پہلے ایک بنیادی اصول یاد رکھنا ہوتا ہے: معلومات جتنی زیادہ ہوں، ذمہ داری اتنی ہی بھاری۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے — ڈیٹا کا لالچ بے تحاشہ ہے، لیکن حفاظت کا اہتمام صفر کے برابر۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں شہریوں کا ڈیٹا لیک ہوا ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ شاید آخری موقع بھی نہ ہو۔ اس سے پہلے نادرا کے نظام سے 27 لاکھ پاکستانیوں کا ڈیٹا چوری ہو چکا ہے۔ نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ 18 کروڑ پاکستانیوں کے لاگ ان کریڈینشلز اور پاس ورڈز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
یہ معمولی سی کوتاہی نہیں، بلکہ مکمل ریاستی ناکامی کی علامت ہے۔
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کیوں اتنے وسعت سے اپنے شہریوں کی نگرانی کر رہی ہے؟ بظاہر اس کی بنیاد ایک خوفناک مفروضہ ہے: “کسی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا” — اور اس عدم اعتماد کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ریاستی ادارے شہریوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں، ان کی کالز، انٹرنیٹ سرگرمیاں، سفری ریکارڈز، اور حتیٰ کہ جسمانی شناخت بھی محفوظ کرنے کے نام پر ذخیرہ کی جا رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس ادارے کو خود اپنی سائبر سیکیورٹی پر بھروسہ نہیں، وہ عوام کے ڈیٹا کا محافظ کیسے بن سکتا ہے؟
یہ محض پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ آئین کی پامالی ہے۔ پاکستان کا آئین شہریوں کو ان کی نجی زندگی کا حق دیتا ہے۔ جب ریاست ہی ان کی ذاتی معلومات جمع کر کے اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے انہیں سائبر مجرموں کے ہاتھوں بیچنے پر مجبور کر دے، تو وہ آئینی وعدے کھوکھلے نعرے بن جاتے ہیں۔
وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب کا ڈیٹا بھی اس لیک شدہ معلومات میں شامل ہے۔ شاید اسی لیے اب ایک تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے، اور اعلانات ہو رہے ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ مگر یہاں سوال مجرموں سے زیادہ نظام پر ہے۔ کیونکہ اگر نظام ایسا ہے جس میں ہر حساس معلومات ایک گوگل سرچ کے فاصلے پر ہو، تو فرد کو سزا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ ریاست خود سے وہ سوال پوچھے جس سے وہ مسلسل منہ موڑتی رہی ہے: ہم اتنا ڈیٹا کیوں جمع کر رہے ہیں؟
کیا واقعی ہمیں ہر شہری کے فون نمبرز، ان کی کال ہسٹری، سفر کے ریکارڈ، اور ان کی تصاویر اپنے پاس محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے؟ یا یہ سب ریاستی وسوسے، طاقت کا نشہ، اور اقتدار کی بیمار خواہش کا شاخسانہ ہے؟
سچ یہ ہے کہ جس دن ریاست اپنے شہریوں کو شک کی نظر سے دیکھنا بند کر دے گی، اسی دن اعتماد کا بیج بویا جا سکے گا۔ مگر ابھی تک ریاست کا رویہ یہی ہے کہ شہری مشکوک ہے، جب تک کہ وہ خود کو بےگناہ ثابت نہ کرے۔ اور یہی روش ہمیں اس حال تک لے آئی ہے۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں سائبر سیکیورٹی کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ نہ نادرا میں، نہ دیگر حکومتی اداروں میں۔ نادرا جیسے ادارے، جو دنیا بھر میں شہریوں کی حساس معلومات کے محافظ ہوتے ہیں، ان کے نظام بھی بچے کی فیس بک آئی ڈی جتنے محفوظ ہیں۔ اگر نادرا کے نظام سے فنگر پرنٹس بھی بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہوں، تو پھر کون سا ڈیٹا محفوظ بچتا ہے؟
یہ سارا نظام ایک نہ ختم ہونے والا تماشا بنتا جا رہا ہے۔ ریاست ایک طرف شہریوں پر نگرانی بڑھاتی جا رہی ہے، دوسری طرف ان کی معلومات خود اپنے ہاتھوں سے مجرموں کے ہاتھوں میں دے رہی ہے۔ پھر نہ صرف شہری خطرے میں ہیں، بلکہ خود ریاست کی ساکھ بھی۔ اور جب عوام کو اپنی ہی ریاست پر اعتماد نہ رہے، تو وہ ریاست کب تک کھڑی رہ سکے گی؟
اب وقت ہے کہ ہم خوداحتسابی کی طرف لوٹیں۔ “اسپائی کرنا”، “فائل رکھنا”، اور “ڈیٹا محفوظ کرنا” ریاستی طاقت کا اظہار نہیں، ایک اخلاقی بوجھ ہے۔ جب اس بوجھ کو اٹھانے کی سکت نہ ہو، تو اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
اگر ریاست واقعی اپنے عوام کی محافظ ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ڈیٹا جمع کرنے کے بجائے ڈیٹا محفوظ بنانے پر توجہ دے۔ نگرانی کے جن کو بوتل میں بند کرے، اور پرائیویسی کو آئینی حق سمجھے، نہ کہ رکاوٹ۔
یہ مسئلہ چند افراد کا نہیں، پوری قوم کا ہے۔ شہری صرف شناختی کارڈ نمبر یا فون نمبرز نہیں ہوتے — وہ انسان ہیں، ان کی زندگی، ان کی رازداری، ان کی شناخت، سب کچھ مقدس ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ خود پر اعتماد بحال کرے، اور عوام کو اپنی ذات پر اعتبار کا موقع دے۔
لیکن ان ساری خرابیوں کے باوجود، ابھی مکمل تاریکی نہیں ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ ڈیٹا لیکس ایک بحران ہیں، مگر اس بحران میں ایک موقع بھی چھپا ہے۔ موقع یہ کہ ہم بطور قوم یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں ایک طاقتور مگر بےاحتساب ریاست چاہیے یا ایک شفاف، ذمہ دار، اور عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ریاست؟
وقت کی آواز ہے کہ حکومت فوری طور پر ڈیجیٹل پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے۔ ایک خودمختار اور بااختیار ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی بنائی جائے جو ہر ادارے کے اوپر جوابدہ ہو۔ شہریوں کے ڈیٹا کو ’’ریاستی ملکیت” نہیں، بلکہ “شہری حق” تصور کیا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر، نگرانی کی سیاست ترک کی جائے — کیونکہ اگر سب پر شک کرو گے، تو آخرکار کوئی تم پر بھی شک کرے گا۔
امید کی کرن یہ ہے کہ ابھی قوم مکمل مایوس نہیں ہوئی۔ لوگ سوال کر رہے ہیں، آوازیں اٹھا رہے ہیں، اور یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ ہمیں بس یہ یقینی بنانا ہے کہ ان آوازوں کو خاموش نہ کیا جائے، بلکہ سنا جائے، سمجھا جائے، اور ان سے سیکھا جائے۔
اگر ریاست یہ جرات کر لے، تو شاید یہ بحران، اصلاح کی پہلی سیڑھی بن جائے۔
ورنہ…
ہم سب، ایک دن صرف 500 روپے میں بکتے رہیں گے۔
