آج کی تاریخ

کیا واقعی اداریہ کی موت ہوگئی ہے؟

دو روز قبل پاکستان کے ایک بڑے اور معتبر سمجھے جانے والے میڈیا گروپ کے تحت شائع ہونے والے قومی روزنامے میں “اداریہ” شائع نہیں ہوا۔ اور آج، جب یہ سطور قلمبند کی جا رہی ہیں، تیسرا دن ہے کہ ادارتی صفحے پر اداریہ کی جگہ ایک معمولی سا کالم سجا دیا گیا ہے — بےروح، بےسمت، بےموقف۔
یہ محض ایک اشاعتی حادثہ نہیں، یہ اردو صحافت کی تاریخ میں ایک خنجر ہے — وہ بھی اس صفحے پر جو کسی دور میں سچ کی آخری پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔ آج اخبار کی وہ آواز خاموش ہے، جو کبھی بےخوفی سے اقتدار کے ایوانوں سے سوال کرتی تھی۔ وہ صفحہ آج خالی ہے، جیسے کسی بستی میں جنازہ اٹھنے کے بعد در و دیوار بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔
کاش یہ محض ایک دن کی لغزش ہوتی، کاش کوئی وضاحت آتی، کوئی نرمی بھرا بیان جاری ہوتا جس میں کہا جاتا کہ “اداریہ کل واپس ہوگا” یا “یہ عارضی رکاوٹ ہے”۔ مگر نہیں۔ کوئی معذرت، کوئی وضاحت، کوئی پریشانی تک نہیں۔ اور یہی خاموشی سب سے خوفناک ہے۔
خاموشی کی یہ سیاہی
اداریہ محض چند سطریں نہیں ہوتا — یہ اخبار کا ضمیر ہوتا ہے، ادارتی صفحے کا دل ہوتا ہے، قارئین سے ایک سنجیدہ مکالمہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ادارے کی بصیرت، اس کی اجتماعی دانش، اس کی سمت اور اس کے نظریے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اور جب یہ صفحہ ہی خاموش ہو جائے، تو سمجھ لیجیے کہ اخبار صرف خبروں کا مجموعہ رہ گیا ہے — سوچ کا مظہر نہیں۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہاں سوال کرنا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔ اور اداریہ سوال کرتا تھا۔ وہ نہ صرف حکومت وقت کی سمت پر تنقید کرتا بلکہ سماجی، تہذیبی، تعلیمی، اور عوامی مسائل پر ایک نظریاتی روشنی ڈالتا تھا۔ آج وہ روشنی گل ہو گئی ہے۔
بارتھ کی موت اور ہماری صحافت کی جنازہ گاہ
رولاں بارتھ نے مغرب میں جدیدیت اور ساختیت کے ابھار کے بعد “مصنف کی موت” کا اعلان کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اب متن کی ملکیت قاری کے پاس ہے، نہ کہ مصنف کے۔ آج ہم بھی اسی طرح کے ایک اعلان کے دہانے پر کھڑے ہیں:
کیا پاکستان میں “اداریے” کی موت ہو چکی ہے؟
مگر نہیں — یہ فطری موت نہیں ہے، یہ تو ایک منظم، پُرمنصوبہ قتل ہے۔
قتل اس سوچ کا، جو ادارتی صفحے پر آزادی سے سانس لیتی تھی۔
قتل اس جرات کا، جو بین السطور عوام کی بےآواز چیخ کو تحریر کرتی تھی۔
قتل اس یقین کا، کہ صحافت فقط کاروبار نہیں، ایک ذمےداری بھی ہے۔
بزنس مین ایڈیٹرز اور خاموش کاتب
جب سے میڈیا کے بڑے اداروں میں بزنس کلچر حاوی ہوا — جہاں مالک خود چیف ایڈیٹر بنا، اور اس کا بیٹا نیوز روم کا شہزادہ — وہی دن، دراصل صحافت کے زوال کا نقطہ آغاز تھا۔
اداریہ کبھی ایک خودمختار ادارتی ٹیم یا کہنہ مشق ایڈٹر خود لکھا کرتے تھے، جو عوامی نبض پر ہاتھ رکھ کر ملک کی سمت پر بات کیا کرتے۔ مگر اب؟ اب وہی ادارتی صفحہ اشتہارات سے لبریز، ادارہ جاتی مفادات سے مصلحت اندیش، اور ’’نقصان دہ رائے” سے خالی کر دیا گیا ہے۔
کیا ہم اسے “جدت” کا نام دے دیں؟
کیا ہم مان لیں کہ آج کے دور میں ادارتی صفحہ غیر ضروری ہو چکا ہے؟
نہیں۔ ہزار بار نہیں۔
اداریہ کیوں لازم ہے؟
اداریہ اس لئے ضروری ہے کیونکہ:
یہ اخبار کی شناخت ہے؛
یہ قاری کے ساتھ ادارے کا غیرعلانیہ معاہدہ ہے؛
یہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں فکری رہنمائی کا ذریعہ ہے؛
یہ رائے سازی کا سب سے معتبر پلیٹ فارم ہے؛
اور سب سے بڑھ کر، یہ وہ آئینہ ہے جس میں قوم اپنے چہرے کا سچ دیکھتی ہے۔
جب اداریہ بند ہو جائے، تو گویا اخبار نے خود کو فقط “کاروباری دستاویز” بنا لیا۔ پھر خبر میں خبر نہیں، تجزیے میں بصیرت نہیں، اور رائے میں آزادی نہیں ہوتی۔

مگر کیوں؟ خوف یا مفاد؟
سوال یہ ہے کہ کیا یہ خاموشی صرف جبر کا نتیجہ ہے؟ یا کمرشل مفادات کی قربانی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں عوامل یکجا ہو چکے ہیں۔
ایک طرف وہ صحافی جو ماضی میں بین السطور سچ بیان کرتے تھے، اب یا تو ملک بدر ہیں، یا خاموشی کو اپنا رزق بنا چکے ہیں۔
دوسری طرف وہ میڈیا مالکان جو حکومتی اشتہارات کی طمع میں حق گوئی کو جرم سمجھنے لگے ہیں۔
اداریہ لکھنے کے لئے نہ صرف دانش بلکہ جرات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں جب بازار کی بولی پر نیلام ہونے لگیں، تو پھر خاموش صفحہ ہی بچتا ہے۔
ایک منظر جو چیخ رہا ہے
سوچیے، ایک قاری صبح اخبار کھولتا ہے — سب خبریں موجود، رنگ برنگی تصاویر، سیاسی بیانات، کرائم رپورٹس، حتیٰ کہ “سیلیبریٹی گپ شپ” بھی۔
مگر جب وہ ادارتی صفحہ کھولتا ہے، تو ادارے کی رائے کی جگہ دوسروں کے کالموں پر مشتمل رائے سامنے منہ چڑا رہی ہوتی ہے — کالم بھی ایسا جس میں نہ کوئی موقف ہے، نہ وژن، نہ جرات، نہ درد۔
قاری شاید کڑھتا ہے، مگر پھر کندھے اچکا کر اخبار بند کر دیتا ہے۔
مگر ہم، جو صحافت کے اس منظرنامے کو دیکھ رہے ہیں، جانتے ہیں کہ یہ محض ایک صفحے کی کمی نہیں، یہ ایک پورے صدی کا اختتام ہے۔
اردو صحافت: ایک تاریخی ورثہ
اردو صحافت کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیے تو ہمیں مولانا ظفر علی خان، چراغ حسن حسرت، حبیب جالب، اور کئی دیگر نام یاد آتے ہیں، جنہوں نے ادارتی صفحوں کو فکری معرکے کا میدان بنایا۔ وہ اپنے قلم سے معاشرے کے نبض شناس بنے۔
یہ اداریے ہی تھے جو کبھی جنگوں کے خلاف بولے، کبھی آمریت کے سامنے ڈٹے، اور جمہوری اقدار کی حمایت میں سینہ تان کر کھڑے ہوئے۔ آج اگر یہی اداریہ خاموش ہو جائے، تو یہ ایک نسل سے اس کی فکری میراث چھین لینے کے مترادف ہے۔
امید کی آخری کرن
لیکن اندھیرے کے ہر دور میں، ایک شمع ضرور روشن ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نہ تو اداریہ کی موت واقع ہوئی ہے، اور نہ ہی اس کی ضرورت ختم ہوئی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اداریہ لکھنے والے یا تو مجبور ہیں، یا دباو اور مصلحت کے مارے ہوئے ہیں۔
اور اگر ایسا ہی ہے، تو پھر ہمیں ایسی نسل تیار کرنی ہو گی جو
بین السطور لکھنے کا ہنر جانتی ہو،
جبر کے موسم میں سچ بولنے کی ہمت رکھتی ہو،
اور “کمرشل اخلاقیات” کے سامنے اپنے قلم کو سرنگوں نہ کرے۔
اداریہ ابھی زندہ ہے — مگر شاید زخمی، شاید بے آواز، ہاں مگر مردہ نہیں۔
اس کی نبض ابھی چل رہی ہے — ہمیں فقط اس کی صدا دوبارہ سننے کی کوشش کرنی ہے۔
آخر میں…
صحافت کبھی صرف خبر نہیں تھی، وہ ایک عہد تھا —
جس میں اخبار کا ادارتی صفحہ قاری کے لیے ایک چراغ تھا، ایک لائیٹ پول تھا۔
آج وہ چراغ بجھایا گیا ہے،
مگر ہوا کی ایک ہلکی سی لہر بھی اگر سچی ہو —
تو وہ شعلہ پھر سے بھڑک سکتا ہے۔
ہماری صحافت مر نہیں گئی،
وہ فقط کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئی ہے — ایک وقفہ ہے _
شاید ہمیں آزمانے کے لیے،
کہ ہم اسے کتنا یاد کرتے ہیں، اس کی کتنی کمی محسوس کرتے ہیں اور اس کی واپسی کے لیے کتنا تڑپتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں