کامن ویلتھ گزشتہ برس ساموآ میں جب اپنے رہنماؤں کو اکٹھا کرتی ہے تو جمہوری اقدار اور میڈیا کی آزادی کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے۔ وہاں ’’میڈیا پرنسپلز‘‘ پر دستخط ہوتے ہیں، یہ وعدے کیے جاتے ہیں کہ آزادیٔ اظہار کا دفاع کیا جائے گا اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ لیکن چند ماہ بعد سامنے آنے والی رپورٹ نے ان دعوؤں کی حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔ اعداد و شمار گواہی دیتے ہیں کہ الفاظ اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 41 رکن ممالک میں توہینِ عدالت اور ہتک عزت کے قوانین اب بھی فوجداری حیثیت میں موجود ہیں، 48 ریاستیں بغاوت کے قوانین پر انحصار کرتی ہیں اور دیگر نوآبادیاتی قوانین صحافت اور آزادیٔ رائے پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔ یہ تمام کالے قوانین حکمران طبقوں کے لیے آسان ہتھیار بنے ہوئے ہیں تاکہ اختلاف کرنے والی آوازوں کو خاموش کرایا جا سکے۔اعداد و شمار خوفناک ہیں۔ 2006 سے 2023 تک کامن ویلتھ کے ممالک میں 213 صحافی قتل کیے گئے اور یونیسکو کے مطابق 96 فیصد مقدمات میں قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک نہ لایا جا سکا۔ یہ صرف حکومتوں کی بدنامی نہیں بلکہ ایک کھلا پیغام ہے کہ طاقتوروں کو سزا نہیں ملے گی اور جو چاہے صحافیوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس ماحول میں ہر نیا قاتل مزید جری اور ہر نیا صحافی مزید غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔پاکستان اس منظرنامے کی سب سے بھیانک مثال ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں 80 سے زائد صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور انصاف کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ سلیم شہزاد کا اغوا اور قتل، ولی خان بابر کی ٹارگٹ کلنگ اور بعد ازاں گواہوں کا ایک ایک کر کے ختم ہونا، اور ارشد شریف کا دیار غیر میں پولیس کے ہاتھوں مارا جانا—یہ سب ہمارے اجتماعی ضمیر پر سیاہ دھبے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی مقدمے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔ متاثرہ خاندانوں کو انصاف کے بجائے دھمکیاں اور صبر کے زخم ملے۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کا ہتھیار بنا کر صحافیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ انٹرنیٹ پر ناپسندیدہ آوازوں کو دبانے کا آلہ بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں نچلی ترین سطحوں پر شمار ہوتا ہے۔ جب صحافی غیر محفوظ ہوں تو جمہوریت کا دعویٰ محض کھوکھلی نعرہ بازی بن جاتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اور ادارے اب بھی محض اعلانات اور بیانات پر اکتفا کریں گے یا عملی اصلاحات کی طرف بڑھیں گے؟رپورٹ نے واضح تجاویز دی ہیں: فوجداری حیثیت رکھنے والے ہتک عزت اور بغاوت کے قوانین کو منسوخ کیا جائے، صحافیوں پر حملوں کی آزادانہ تحقیقات ہوں، اور استثنا ختم کرنے کے لیے شفاف احتسابی نظام بنایا جائے۔ پاکستان کے لیے یہ مزید ضروری ہے کہ ڈیجیٹل سنسرشپ کے قوانین میں اصلاحات کرے اور آزاد استغاثہ کو بااختیار بنائے۔ بصورت دیگر کامن ویلتھ کے بیانات محض کھوکھلی گونج رہیں گے اور پاکستان جیسے ممالک میں صحافت کا گلا گھونٹنے کا عمل اسی طرح جاری رہے گا۔پاکستان میں آزادیٔ صحافت کے گرد گہری ہوتی گھٹن صرف چند واقعات یا محدود قوانین کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر نظامی بحران کی علامت ہے۔ اس بحران میں ریاستی ادارے، طاقتور سیاسی و عسکری حلقے اور بعض اوقات بڑے میڈیا مالکان بھی شریک نظر آتے ہیں۔ صحافیوں پر دباؤ صرف براہِ راست تشدد یا قتل کی صورت میں ہی نہیں ڈالا جاتا بلکہ مالی بدحالی، نوکری کے عدم تحفظ اور خود سنسری پر مجبور کرنے والی پالیسیوں کے ذریعے بھی ان کی آواز کو محدود کیا جاتا ہے۔ یوں ایک ایسا ماحول تشکیل پاتا ہے جہاں صحافت کی اصل روح، یعنی عوام تک حقائق پہنچانا، روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے۔بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس اس تلخ حقیقت کو مزید نمایاں کرتی ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا کی شرح تقریباً صفر ہے۔ یہ ’’استثنا‘‘ دراصل قاتلوں اور حملہ آوروں کے لیے کھلی چھوٹ کا اعلان ہے۔ جب کسی قتل یا حملے کے بعد تحقیقات ادھوری چھوڑ دی جائیں، مقدمات برسوں تک لٹکے رہیں اور مقتول کے خاندان کو دھمکیوں کے سوا کچھ نہ ملے تو لازمی ہے کہ صحافت کا پیشہ خوف اور جبر کی علامت بن جائے۔ اس خوف نے نئے آنے والے نوجوان صحافیوں کو بھی مایوس کیا ہے جو میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ہی مستقبل کے خطرات کا حساب لگانے پر مجبور ہیں۔اسی تناظر میں یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ آخر کامن ویلتھ جیسی تنظیموں کے بیانات اور اعلانات کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے جب ان کے رکن ممالک میں ہی صحافیوں کا خون بہتا ہے اور آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹا جاتا ہے؟ ساموآ اعلامیہ میں کیے گئے وعدے کاغذی قلعے ثابت ہوئے ہیں کیونکہ عملی طور پر نہ تو ان پر عمل درآمد کی کوئی میکانزم موجود ہے اور نہ ہی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کو جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر یہ تنظیم واقعی آزادیٔ صحافت اور جمہوری اقدار کے تحفظ کی خواہاں ہے تو اسے محض بیانات پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے رکن ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔پاکستان کے تناظر میں اصلاحات کا راستہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ سب سے پہلے ریاست کو یہ طے کرنا ہوگا کہ آزادیٔ صحافت کو قومی سلامتی کے خلاف اقدام سمجھنے کا رویہ ترک کرنا ہے۔ جب تک صحافیوں کو غدار، دشمن کا ایجنٹ یا معاشرتی انتشار پھیلانے والا قرار دینے کی روایت زندہ ہے، اس وقت تک اصلاحات محض کھوکھلے نعروں تک محدود رہیں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایک آزاد اور بااختیار کمیشن قائم کرے جو صحافیوں کے خلاف جرائم کی تفتیش کرے اور مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے۔اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اداروں کو بھی اپنی صفوں میں احتساب اور شفافیت لانی ہوگی۔ تنخواہوں کی غیر یقینی صورتحال اور مالکان کی جانب سے سرکاری و غیر سرکاری دباؤ قبول کرنے کے رویے نے بھی آزادیٔ صحافت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایک ایسا پیشہ جو سماج کو طاقتور کے احتساب کا ہنر دیتا ہے، خود کمزور اور غیر محفوظ نہیں رہ سکتا۔یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ آزادیٔ صحافت دراصل عوام کے جاننے کے حق کا دوسرا نام ہے۔ جب یہ حق سلب ہو تو جمہوریت کا ڈھانچہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اگر پاکستان واقعی ایک جمہوری معاشرہ بننے کا دعویٰ رکھتا ہے تو اسے آزادیٔ صحافت کو محض بیانیے کی زینت نہیں بلکہ پالیسی کی بنیاد بنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ کامن ویلتھ کے دیگر ممالک کے لیے بھی جمہوری وعدوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔یہ اداریہ یاد دہانی ہے کہ جب تک صحافی آزاد اور محفوظ نہیں ہوں گے، تب تک عوام کے حقِ جاننے اور حکومت کے احتساب کا وعدہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر پریس غیر محفوظ ہے تو جمہوریت کی بنیاد بھی غیر محفوظ ہے۔
