حکومت نے حالیہ ٹریژری بلز کی نیلامی کے ذریعے 515.2 ارب روپے اکٹھے کر لیے جو مقررہ ہدف سے 91 ارب روپے زیادہ ہیں۔ اس کامیابی کو بظاہر ایک مالیاتی حکمت عملی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ حکمت عملی پائیدار ہے یا پھر آنے والے دنوں میں یہ معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گی۔حالیہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ سرمایہ کاروں کی اکثریت نے ایک ماہ کی مدت کے ٹریژری بلز کو ترجیح دی۔ یہ رجحان اس خدشے کی علامت ہے کہ مارکیٹ کو ڈسکاؤنٹ ریٹ میں جلد کمی کی توقع ہے۔ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے پارلیمانی کمیٹیوں میں خود اس امکان کا عندیہ دیا تھا، اور اسی بنیاد پر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مقامی قرضوں پر شرحِ سود کی ادائیگی کے تخمینے کو کم کر کے پیش کیا گیا۔ لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمینی حقائق اس رجحان کی اجازت دیتے ہیں؟بجٹ کی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مالی سال کا 93 فیصد حصہ غیر ترقیاتی یا کرنٹ اخراجات پر خرچ کیا جانا ہے، یعنی وہ اخراجات جو معیشت میں نئی پیداوار یا ترقی کے بجائے صرف موجودہ نظام کو چلانے کے لیے ہوتے ہیں۔ جب ایسے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرض لیا جاتا ہے تو یہ براہِ راست افراطِ زر میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ مزید یہ کہ مجموعی بجٹ کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ اندرونی قرضوں سے پورا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ نجی شعبے کے لیے قرضے سکڑتے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت نجی شعبے کے لیے کریڈٹ فلو منفی اعداد میں ہے—ایک ایسے وقت میں جب حکومت مسلسل نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کے دعوے کر رہی ہے۔اس پس منظر میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی کا امکان غیر یقینی نظر آتا ہے۔ وزیرِ خزانہ کے اعلان کے وقت ابھی تباہ کن سیلاب نہیں آئے تھے جنہوں نے کھیت، گھر، مویشی اور بنیادی ڈھانچہ ملیامیٹ کر دیا ہے۔ اب بیشتر ماہرین معیشت متفق ہیں کہ بجٹ میں پیش کردہ 4.2 فیصد ترقی کی شرح حقیقت میں ایک فیصد سے بھی کم رہنے کا خدشہ ہے۔ ایسی صورت حال میں مانیٹری پالیسی کمیٹی کے پاس شرحِ سود میں کمی کرنے کی گنجائش بہت محدود ہو جاتی ہے کیونکہ اس اقدام سے افراطِ زر مزید بھڑک سکتا ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ افراطِ زر اور شرحِ سود کے درمیان تعلق ایک ایسا نکتہ ہے جو براہِ راست آئی ایم ایف کی شرائط سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا جب تک فنڈ کی منظوری حاصل نہ ہو، شرحِ سود کم کرنے کا فیصلہ صرف مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ہاتھ میں نہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت کے لیے قرض لینے کی لاگت آئندہ مہینوں میں مزید بڑھ سکتی ہے جس سے بجٹ خسارہ مزید گہرا ہوگا۔اس صورتحال کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قلیل مدتی ریلیف کے اقدامات کو طویل مدتی پالیسی کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ اگر معیشت کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات نہ کی گئیں، اخراجات کی ترجیحات کو درست نہ کیا گیا اور نجی شعبے کے لیے فنانسنگ کے مواقع نہ بڑھائے گئے تو ٹریژری بلز کی یہ کامیاب نیلامیاں بھی مستقبل میں بحران کو اور شدید کر دیں گی۔ حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ وقتی آسانی کے لیے قرضوں پر انحصار جاری رکھے گی یا پائیدار اصلاحات کے ذریعے معیشت کو حقیقی استحکام دینے کی کوشش کرے گی۔
