ملتان (سہیل چوہدری سے) پاکستان میں لائف سیونگ ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور مارکیٹ میں ان کی قلت نے عوام کے لیے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 146 لائف سیونگ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری نہیں دی تھی جبکہ ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں پر کوئی پابندی بھی عائد نہیں کی گئی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کئی کمپنیوں نے ادویات کی پروڈکشن یا تو مکمل طور پر روک دی یا محدود کر دی جس سے مارکیٹ میں ادویات کی شدید قلت پیدا ہوئی اور ڈسٹری بیوٹرز نے ان کی قیمتیں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔موجودہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور سابقہ فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی۔ نتیجتاً یہ کمپنیاں روزانہ کی بنیاد پر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں جس سے مریضوں کے لیے علاج حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ذیابیطس، دل، گردوں اور سانس کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیںجبکہ ہسپتالوں میں بھی ان ادویات کی دستیابی میں کمی رپورٹ ہوئی ہے۔پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید فاروق بخاری نے بتایا کہ “روپے کی قدر میں کمی، ایندھن اور یوٹیلیٹی چارجز میں اضافے کے باعث پیداواری لاگت ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کی منظوری نہ دینے سے کمپنیوں کے لیے پروڈکشن جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ چار ملٹی نیشنل کمپنیاں پہلے ہی پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ چکی ہیں، جبکہ مقامی کمپنیاں بھی بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔پاکستان ڈرگز لائرز فورم کے چیئرمین محمد نور مہر نے خبردار کیا کہ “مارکیٹ میں لائف سیونگ ادویات کی تقریباً 10 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ کچھ ادویات اور خام مال بندرگاہوں پر کلیئرنس کے منتظر ہیں، جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔” انہوں نے ڈریپ کی ناکامی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتھارٹی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔دوسری جانب، ڈریپ کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھی جا رہی ہے اور غیر قانونی اضافے کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈریپ کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، اور دوا ساز کمپنیاں اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا رہی ہیں۔ آنکھوں کے علاج میں استعمال ہونے والی ٹیبلٹ اے زیڈ ایم کی قیمت 48 روپے سے بڑھ کر 2200 روپے دماغی امراض کی میڈیسن ریٹالل کی قیمت 200 روپے سے بڑھ کر 2400 روپے، مینی ڈال کی قیمت 250 روپے سے بڑھ کر 1500 سے دو ہزار روپے ہو گئی ہے۔ فریزیم میڈیسن نا پید ہو گئی ہے جن ڈسٹری بیوٹرز کے پاس سٹاک پڑا ہے وہ 16 ہزار روپے تکا فروخت کر رہے ہیں حالانکہ اس کی اصل قیمت 1200 روپے ہے ۔حکومت نے اس بحران اور بلیک میلنگ سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں جس سے صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے دو ماہ قبل فارما سوٹیکل انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی مگر کمیٹی نے آج تک اس حوالے سے کوئی میٹنگ منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے اس انڈسٹری سے وابستہ افراد اور مریضوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے 1.1 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی بحالی سے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو سکتے ہیں جو ادویات کی درآمدات کے مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں تاہم جب تک کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنائی جاتی یا موثر اقدامات نہیں کیے جاتے مریضوں کو ادویات کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
