آج کی تاریخ

سایوں کا جال اور نگرانی کا خوف

پاکستان میں شہری آزادیوں پر چھائے اندیشے اب ایک بار پھر نمایاں ہو گئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ “Shadows of Control: Censorship and Mass Surveillance in Pakistan” نے وہ حقیقت کھول دی ہے جس کا اندازہ عوام کو صرف افواہوں اور قیاس آرائیوں سے تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کروڑوں شہریوں کی زندگی، ان کی گفتگو، پیغامات، ای میلز اور انٹرنیٹ سرگرمیاں ایک ایسے نگرانی کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں جس کی وسعت اور شدت کا عوام کو سرے سے ادراک ہی نہیں۔ اس بات پر سوچنا ناگزیر ہے کہ یہ نظام عوام کے تحفظ کے لیے بنایا گیا یا اقتدار کو دوام دینے کے لیے؟یہ بھی افسوس ناک ہے کہ اس پورے ڈھانچے کی مالی لاگت دراصل عوام ہی کے ٹیکسوں سے پوری ہوئی ہے۔ یعنی شہری اپنی ہی جیب سے ایک ایسا شکنجہ تیار کرنے پر مجبور ہیں جس میں ان کی نجی آزادیوں کو کچلا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی چینی، یورپی، اماراتی اور شمالی امریکی کمپنیوں سے حاصل کی گئی، لیکن اسے چلانے کے لیے نہ کوئی شفاف قانونی فریم ورک وضع کیا گیا اور نہ ہی پارلیمانی نگرانی موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی ادارے من مانی انداز میں شہریوں کی زندگیوں تک رسائی رکھتے ہیں، اور اس نگرانی کے غلط استعمال کی مثالیں حال ہی میں سامنے آنے والے ذاتی ڈیٹا لیکس سے عیاں ہو چکی ہیں۔اس کا پس منظر بھی غور طلب ہے۔ 2018 میں جب ’’ہائبرڈ ماڈل‘‘ کے تجربے نے سیاسی منظرنامے کو اپنی گرفت میں لینا شروع کیا تو اسی دوران ایک قومی سطح کا انٹرنیٹ مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا گیا۔ 2023 میں اس نظام کو اس وقت مزید وسعت دی گئی جب عوامی بے چینی اپنے عروج پر تھی۔ اور پھر متنازع عام انتخابات (فروری 2024) کے بعد ہر ٹیلی کام کمپنی کو حکم دیا گیا کہ وہ Lawful Intercept Management System نصب کرے تاکہ انٹیلی جنس اداروں کو فوری طور پر ہر شہری کے کال لاگز، پیغامات، براؤزنگ ہسٹری اور دیگر ذاتی معلومات تک رسائی حاصل ہو سکے۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے یا پھر شعوری طور پر ایک ایسے نظام کو تقویت دی گئی ہے جو عوام کو تابع رکھنے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے بنایا گیا ہے؟یہ سب کچھ اس وقت زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب عدلیہ بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ برس اس نظام کے غلط استعمال کو روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے ان اقدامات کو معطل کر دیا اور اس کے بعد سے کیس کو سننے کی زحمت بھی نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ جب سب سے بڑی عدالت ہی شہری آزادیوں کے تحفظ میں بے اعتنائی برت رہی ہے تو عام شہری کہاں انصاف ڈھونڈے؟اس صورتحال نے پاکستان کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں نگرانی کا نظام صرف پرائیویسی نہیں چھین رہا بلکہ جمہوریت کی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے۔ آزادیٔ اظہار، سیاسی شمولیت اور شہری حقوق سب کچھ خطرے میں ہے۔ آج اگر اس جبر کو معمول سمجھ کر قبول کر لیا گیا تو کل کوئی بھی طاقتور گروہ اسے اپنے مخالفین کو دبانے، صحافت کو خاموش کرانے اور عوامی رائے کو مسخ کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔وقت کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ، سول سوسائٹی اور آزاد میڈیا مل کر اس نگرانی کے جال کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر عوام اپنی آزادیوں کے دفاع میں خاموش رہے تو یہ خاموشی ہی ان کی زنجیر بن جائے گی۔ سوال یہ نہیں کہ ریاست ہمیں دیکھ رہی ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نگرانی کو اپنی تقدیر مان کر جئیں گے یا اپنی آزادی کے حق کے لیے کھڑے ہوں گے؟پاکستان میں نگرانی اور سنسرشپ کے اس جال کے اثرات محض نجی زندگی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کے سیاسی، سماجی اور معاشی نتائج بھی گہرے ہوں گے۔ جب ہر کال، ہر پیغام اور ہر آن لائن سرگرمی ریاست کی نظر میں ہوگی تو شہریوں میں خوف اور بے اعتمادی کی فضا پروان چڑھے گی۔ اختلاف رائے رکھنے والا شخص جان لے گا کہ اس کی آواز صرف دبائی ہی نہیں جا سکتی بلکہ اس کی ذاتی زندگی کو بھی ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔ یہی خوف معاشرے کو جمود کا شکار کرتا ہے، نوجوان نسل کو تخلیقی آزادی سے محروم کرتا ہے اور سیاست کو روبوٹک فرمانبرداری تک محدود کر دیتا ہے۔یہ نگرانی کا نظام سرمایہ کاری اور معیشت پر بھی براہِ راست اثر ڈال سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کمپنیاں اور سرمایہ کار اسی ملک کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ڈیٹا کے تحفظ اور نجی آزادی کی ضمانت دی گئی ہو۔ جب پاکستان میں یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ شہریوں کا ڈیٹا کسی بھی وقت لیک ہو سکتا ہے اور ہر ای میل یا کال خفیہ اداروں کی دسترس میں ہے تو بیرونی سرمایہ کار اعتماد کھو دیں گے۔ یہ صورتحال ڈیجیٹل معیشت کو پنپنے نہیں دے گی اور پاکستان کو جدید دنیا کے تقاضوں سے مزید پیچھے دھکیل دے گی۔عدلیہ کی خاموشی اور بے عملی نے معاملے کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 14، جو نجی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، پر عمل درآمد نہ کروا سکے تو شہریوں کے پاس انصاف کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب آئین اور قانون محض الفاظ رہ جاتے ہیں اور طاقتور ادارے عملی طور پر غیر محدود اختیارات کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ عدم توازن ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کی آخری کڑی کو بھی توڑ دے گا۔پاکستانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی ریاست نے اپنے شہریوں پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی تو انجام بالآخر انتشار اور بغاوت کی صورت میں نکلا۔ 1980ء کی دہائی کی سنسرشپ ہو یا 2007ء میں میڈیا پر لگائی گئی پابندیاں—ہر بار اس کے خلاف عوامی ردعمل نے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ آج اگر یہی نگرانی کا جال مزید سخت کر دیا گیا تو کل اس کے خلاف اجتماعی ردعمل ناگزیر ہوگا، اور اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔اس لیے ضروری ہے کہ سول سوسائٹی، وکلا برادری، صحافی اور طلبہ سب مل کر اس ڈیجیٹل جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ یہ صرف پرائیویسی کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی جمہوریت اور آزادی کا مستقبل داؤ پر ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو یہ خاموشی ہمیشہ کے لیے ریکارڈ ہو جائے گی—اور وہ بھی انہی سسٹمز میں جو ہماری زندگیوں کی ہر دھڑکن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ یا تو پاکستان ایک ایسے معاشرے کی طرف بڑھے گا جہاں آزادی اور نجی زندگی کا احترام ہوگا، یا پھر وہ ایک ایسے نگرانی والے ڈھانچے میں قید ہو جائے گا جس میں ہر شہری ایک فائل نمبر سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ یہ انتخاب عوام کے ہاتھ میں ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے کی جرات کریں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں