آج کی تاریخ

ذہنی صحت کا بحران

ذہنی اذیت اور نفسیاتی دباؤ آج دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب افراد ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ ڈپریشن اور اضطراب طویل المیعاد معذوری کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہیں۔ خودکشی نوجوانوں میں ایک نمایاں المیہ ہے، اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر سو میں سے ایک جان خودکشی کے ذریعے ختم ہوتی ہے۔ صرف 2021 میں سات لاکھ ستائیس ہزار افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ اس رفتار کے ساتھ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) میں طے شدہ 2030 تک خودکشی کی شرح میں ایک تہائی کمی کا ہدف ناقابلِ حصول نظر آ رہا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی معیشت سالانہ ایک کھرب ڈالر ذہنی بیماریوں کی وجہ سے کھو دیتی ہے، کیونکہ لاکھوں انسان اپنی صلاحیت اور پیداواری قوت کھو بیٹھتے ہیں۔ اگرچہ یہ امراض کسی کو نہیں بخشتے، تاہم خواتین ان سے غیر متناسب طور پر زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض چند صفحوں پر درج اعداد نہیں بلکہ اس امر کی صدا ہیں کہ انسانی سماج اپنے سب سے اہم بحران کو ابھی تک پوری طرح سمجھنے اور حل کرنے میں ناکام ہے۔
پاکستان کی حالت تو اور بھی نازک ہے۔ 2022 کے سیلاب نے تین کروڑ تیس لاکھ انسانوں کو متاثر کیا اور سینکڑوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ تباہ شدہ گھروں، برباد کھیتوں اور اجڑی بستیوں نے محض جسمانی نہیں بلکہ گہرے نفسیاتی زخم بھی دیے۔ اب جون 2024 سے دوبارہ تیز بارشوں اور فلش فلڈز نے خیبر پختونخوا، پنجاب اور گلگت بلتستان کو لپیٹ میں لیا، جہاں پچپن لاکھ سے زیادہ افراد متاثر اور بیس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ ریاستی حکمتِ عملیاں زیادہ تر امداد، خیمہ بستیاں اور مکانات کی تعمیر تک محدود رہیں، مگر ذہنی صحت کے اس خاموش بحران کی طرف شاذ و نادر ہی توجہ دی گئی۔
ہر اجڑا ہوا گھر، ہر جان کا ضیاع، ہر ذریعہ معاش کا خاتمہ، متاثرہ افراد کو ایسے خوف، ڈپریشن اور بعد از صدمہ دباؤ (پی ٹی ایس ڈی) میں مبتلا کرتا ہے جو برسوں ان کے ساتھ رہتا ہے۔ گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں اس وقت ایک شدید ذہنی صحت ایمرجنسی ہے، جس پر مقامی حکومت نے نفسیاتی بحالی کی کوششیں شروع کی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ پورے پاکستان کے دو سو چالیس ملین افراد کے لیے پانچ سو سے بھی کم ماہرینِ نفسیات کیسے کافی ہو سکتے ہیں؟ یہ تعداد اس بحران کی وسعت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
پاکستان کا سماجی و معاشی ڈھانچہ پہلے ہی کمزور ہے۔ غربت، بے روزگاری، صنفی امتیاز، تعلیم کی کمی اور صحت کے ناہموار وسائل نے ذہنی صحت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مگر ریاستی سطح پر ذہنی صحت کو ہمیشہ ایک ثانوی مسئلہ سمجھا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ خاموشی کے ساتھ اذیت سہتے ہیں، اور جب ان کا دکھ حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ یا تو خودکشی کر لیتے ہیں یا معاشرتی و خاندانی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ذہنی امراض اکثر جسمانی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ نیند نہ آنا، مسلسل تھکن، اضطراب، غصہ اور یادداشت کی کمزوری سب اسی بحران کی علامات ہیں۔ لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماری کو ’’کمزوری‘‘ یا ’’بدنامی‘‘ سمجھا جاتا ہے، لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس رویے نے مسئلے کو اور گہرا کر دیا ہے۔
پاکستان میں ذہنی صحت کے بحران کا سب سے گہرا اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس کے اثرات سب سے زیادہ ان طبقات پر پڑ رہے ہیں جو ایک طرف تو معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور اور بے وسیلہ ہیں اور دوسری طرف ترقی اور مستقبل کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں کی کیفیت اس وقت ہمارے لیے ایک المیہ بھی ہے اور ایک انتباہ بھی کہ اگر بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران پوری قوم کے لیے ناقابلِ تلافی نقصانات کا باعث بنے گا۔
خواتین کی ذہنی صحت کے مسائل کئی تہوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ گھریلو تشدد ایک تلخ حقیقت ہے جسے اب بھی ہمارے سماج میں ’’نجی معاملہ‘‘ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ خواتین پر ہاتھ اٹھانا، ان کی رائے کو کچل دینا، یا انہیں محض خدمت تک محدود کر دینا اکثر گھروں میں معمول سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف جسمانی اذیت کا باعث بنتا ہے بلکہ نفسیاتی طور پر عورت کو توڑ دیتا ہے۔ اس پر مستزاد وہ معاشرتی پابندیاں ہیں جو عورت کو اپنی خواہشات، خوابوں اور رائے سے دستبردار ہونے پر مجبور کرتی ہیں۔ جب عورت کو اپنی زندگی کے فیصلوں میں شراکت کا حق نہ ملے تو اس کی ذہنی صحت متاثر ہونا لازمی ہے۔
جنسی ہراسانی خواتین کے لیے ایک اور بڑا نفسیاتی بوجھ ہے۔ کام کی جگہوں، تعلیمی اداروں اور حتیٰ کہ پبلک مقامات پر خواتین کو خوف، دھونس اور بدنامی کے سائے میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اکثر خواتین اپنی حفاظت کے لیے آواز بلند کرنے کے بجائے خاموش رہتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ نظام انصاف ان کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں ہی کٹہرے میں کھڑا کر دے گا۔ یہ خاموشی اندر ہی اندر ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور احساسِ کمتری میں بدل جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دوہرے بوجھ کا مسئلہ بھی ہے۔ پاکستانی خواتین نہ صرف گھریلو ذمے داریاں نبھاتی ہیں بلکہ ایک بڑی تعداد ملازمت یا کسی دوسرے کام کے ذریعے خاندان کے معاشی بوجھ کو بھی سنبھالتی ہے۔ لیکن ان کی محنت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ گھر میں ’’یہ تو عورت کا فرض ہے‘‘ کہہ کر ان کے کام کی قدر کم کی جاتی ہے اور دفتر یا معاشرے میں انہیں مردوں کے مساوی حقوق نہیں دیے جاتے۔ یہ مسلسل ناانصافی خواتین کو تھکاوٹ، اضطراب اور ذہنی الجھن میں مبتلا کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں خواتین اپنی کیفیت کو بیان کیے بغیر خاموشی کے ساتھ بیماری سہتی رہتی ہیں۔ وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتیں کیونکہ ذہنی بیماری کو بدنامی سمجھا جاتا ہے اور اکثر انہیں یہ سہولت حاصل بھی نہیں ہوتی۔
دوسری جانب نوجوانوں کا بحران اپنی جگہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں ملک کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ لیکن یہی نوجوان بے روزگاری، تعلیمی دباؤ اور غیر یقینی مستقبل کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تعلیمی ادارے مقابلے کی دوڑ میں طلبہ پر غیر معمولی دباؤ ڈالتے ہیں، دوسری طرف تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری نہ ملنے کا خوف ان کی ذہنی صحت کو برباد کر دیتا ہے۔ لاکھوں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ یہ مایوسی انہیں ڈپریشن اور بعض اوقات خودکشی جیسے انتہائی اقدامات کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
نوجوانوں کو ایک اور بڑا چیلنج معاشرتی دباؤ کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کو اپنی پسند کے کیریئر یا طرزِ زندگی کے انتخاب کی آزادی نہیں ملتی۔ خاندان اور معاشرتی توقعات اکثر ان پر بوجھ ڈال دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان اپنی اصل دلچسپی اور صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے کے بجائے دوسروں کی خواہشات پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور جب وہ ناکام ہوتے ہیں تو اس کا خمیازہ ذہنی اذیت کی صورت میں بھگتتے ہیں۔
یہ دونوں طبقات — خواتین اور نوجوان — دراصل پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہیں۔ خواتین معاشرے کے نصف حصے کی نمائندگی کرتی ہیں اور نوجوان اس ملک کی آبادی کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ لیکن اگر یہی طبقات سب سے زیادہ ذہنی بحران کے شکار ہیں تو یہ اس بات کا الارم ہے کہ ہماری پالیسی، ہمارا سماجی ڈھانچہ اور ہمارا ریاستی رویہ ناکام ہو رہا ہے۔
ذہنی صحت کے بحران کو حل کرنے کے لیے ہمیں ان طبقات کی مخصوص ضروریات پر توجہ دینی ہوگی۔ خواتین کے لیے محفوظ ماحول، انصاف کی فوری فراہمی، اور گھریلو و معاشرتی سطح پر ان کی محنت کا اعتراف ضروری ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع، تعلیمی دباؤ میں کمی اور مثبت تفریحی سرگرمیوں کی فراہمی ناگزیر ہے۔ ان اصلاحات کے بغیر نہ خواتین کو سکون ملے گا نہ نوجوانوں کو امید، اور پاکستان کا مستقبل مسلسل غیر یقینی کے بوجھ تلے دبکا رہے گا۔
ریاستی ادارے بنیادی صحت تک تو بمشکل رسائی دیتے ہیں، ذہنی صحت کے لیے تو وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے بجٹ کل صحت بجٹ کا ایک فیصد بھی نہیں۔ ذہنی صحت اسپتال کم ہیں، ماہرین کی تعداد ناکافی ہے، اور کمیونٹی سطح پر کوئی ڈھانچہ موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین کے لیے این جی اوز اور چند فلاحی ادارے ہی سہارا بنتے ہیں۔
لیکن یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی ذہنی صحت کو ہمیشہ دوسرے درجے کا مسئلہ سمجھا گیا۔ عالمی ادارۂ صحت کے اعتراف کے باوجود دنیا بھر میں ذہنی صحت کے لیے فنڈنگ اور پالیسی دونوں ناکافی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان اس بحران میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ذہنی صحت کو محض ’’انفرادی‘‘ یا ’’ذاتی‘‘ مسئلہ سمجھنا چھوڑ دیں۔ یہ ایک اجتماعی اور قومی مسئلہ ہے جسے پالیسی کی سطح پر ترجیح دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے چند اہم اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہیں:
زرعی اور موسمیاتی آفات کے بعد نفسیاتی امداد: جس طرح متاثرین کے لیے خیمے اور خوراک فراہم کی جاتی ہے، اسی طرح ذہنی صحت کے ماہرین کو بھی آفات زدہ علاقوں میں بھیجا جائے۔ موبائل مینٹل ہیلتھ یونٹس قائم کیے جائیں۔
نفسیاتی ماہرین کی تیاری: ملک میں ماہرینِ نفسیات کی تعداد بڑھانے کے لیے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں۔ کم از کم ہر ضلع میں نفسیاتی سہولت لازمی قرار دی جائے۔کمیونٹی سطح پر آگاہی: دیہات اور شہروں میں آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ ذہنی امراض کو بدنامی نہیں بلکہ بیماری سمجھا جائے۔اسکولوں اور کالجوں میں کونسلنگ: نوجوانوں کے لیے لازمی کیا جائے کہ تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مشاورت اور کونسلنگ سہولت دستیاب ہو۔
قانون سازی اور بجٹ: صحت کے بجٹ میں ذہنی صحت کے لیے کم از کم پانچ فیصد مختص کیا جائے اور اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ذہنی صحت کا بحران محض ایک میڈیکل مسئلہ نہیں، یہ ہمارے معاشرتی، معاشی اور سیاسی بحرانوں کا عکاس ہے۔ غربت، موسمیاتی آفات، صنفی امتیاز، سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی انتشار سب مل کر ذہنی صحت کو برباد کر رہے ہیں۔ اگر ریاست اس بحران کو نظرانداز کرتی رہی تو یہ نہ صرف انفرادی المیے کو بڑھائے گا بلکہ قومی ترقی کو بھی روک دے گا۔ ذہنی صحت کو صحت عامہ کے مرکزی ایجنڈے میں شامل کرنا اب ناگزیر ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم خاموشی توڑیں، سماجی بدنامی کے خوف کو ختم کریں، اور ذہنی صحت کو وہ اہمیت دیں جو اسے ملنی چاہیے۔ بصورتِ دیگر، ایک ارب انسانوں کے عالمی بحران میں پاکستان کا حصہ مسلسل بڑھتا جائے گا — اور ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک ایسے سماج کے حوالے کریں گے جو جسمانی طور پر تو زندہ ہوگا مگر ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔

شیئر کریں

:مزید خبریں