اسرائیل کی جانب سے دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی بمباری محض ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ خطے کی سیاست میں زلزلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب حماس کے جلاوطن رہنما ایک امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی تجویز پر غور کے لیے جمع تھے۔ اگرچہ مرکزی قیادت محفوظ رہی، لیکن ان کے محافظ، معاونین اور ایک قطری افسر ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے اپنے روایتی دائرہ جنگ — غزہ، لبنان، شام اور ایران — سے آگے بڑھ کر ایک خلیجی بادشاہت کے دارالحکومت میں کارروائی کی ہے۔یہ اقدام محض عسکری حکمت عملی نہیں بلکہ سفارتی سطح پر کھلی چیلنجنگ بھی ہے۔ قطر ایران کا حلیف نہیں بلکہ امریکہ کا قریبی پارٹنر ہے، جہاں مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ موجود ہے اور جسے واشنگٹن نے “میجر نان نیٹو ایلائی” کا درجہ دیا ہوا ہے۔ اس پس منظر میں اسرائیلی بمباری دراصل ایک ایسی لکیر پار کرنے کے مترادف ہے جو پورے خطے کو عدم استحکام کی نئی سطح پر لے جا سکتی ہے۔ یہ واقعہ ہر عرب دارالحکومت کے لیے انتباہ ہے کہ اگر قطر کی خودمختاری پامال ہو سکتی ہے تو کوئی ریاست بھی محفوظ نہیں۔
یہ بمباری ایسے وقت میں کی گئی جب قطر، ترکی اور مصر جنگ بندی مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ایسی کارروائی سفارت کاری کو براہِ راست سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امن کی کوشش کرنے والوں کو ہی نشانہ بنایا جائے تو پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی بڑھ گیا ہے کہ امریکہ خود کسی نہ کسی صورت میں اس تنازع میں زیادہ براہِ راست الجھ سکتا ہے۔ واشنگٹن کو بریفنگ تو دی گئی لیکن برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کو لاعلم رکھا گیا، جس نے یہ تاثر مزید گہرا کر دیا کہ اسرائیل اپنی مرضی سے کسی بھی شراکت دار کی خودمختاری کو روند سکتا ہے اور مغرب اس پر قابو پانے کی صلاحیت یا خواہش نہیں رکھتا۔اس صورتحال نے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے سامنے ایک پرانا سوال دوبارہ لا کھڑا کیا ہے: کیا محض قراردادوں اور بیانات سے اسرائیل کی جارحیت کو روکا جا سکتا ہے؟ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ دہائیوں سے جاری یہی کمزور ردعمل تل ابیب کو مزید جری بناتا رہا ہے۔ اگر اس مرتبہ بھی اجتماعی عزم سامنے نہ آیا تو اسرائیل اپنی غزہ جنگ کو سرحدوں سے باہر برآمد کرنے میں مزید بے خوف ہو جائے گا۔ آج کی کارروائی دوحہ میں ہوئی ہے، کل یہ قاہرہ، ریاض یا کسی اور عرب دارالحکومت میں ہو سکتی ہے۔خطے کے ممالک کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف محض لفظی احتجاج پر اکتفا کریں یا پھر سفارتی تنہائی، معاشی بائیکاٹ اور تعلقات کی معطلی جیسے عملی اقدامات پر غور کریں۔ جب تک اجتماعی قوت بروئے کار نہیں لائی جاتی، اسرائیل کی جنگی مشین اپنی مرضی کے محاذ چنتی رہے گی۔ دوحہ پر بمباری نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر کوئی ریاست امن اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے مؤثر قدم نہیں اٹھائے گی تو کل کی زد میں وہ خود بھی آ سکتی ہے۔ اسرائیل کی یہ تازہ کارروائی خطے میں طاقت کے توازن پر ایک گہرا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ اب مسئلہ صرف فلسطین یا غزہ تک محدود نہیں رہا بلکہ خلیجی ریاستوں کے مستقبل، ان کی خودمختاری اور سفارتی کردار پر بھی براہِ راست اثرانداز ہو رہا ہے۔ قطر کی مثال سامنے ہے جو ایک طرف امریکی اتحادی ہے اور دوسری طرف ثالثی کی میز پر بیٹھ کر تنازع کو حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اسی کو اسرائیلی طیاروں نے نشانہ بنایا۔ یہ حملہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ اسرائیل اب کسی بھی سرحد یا شراکت داری کی پرواہ کیے بغیر اپنی عسکری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان سفارت کاری کو پہنچا ہے۔ اگر قطر جیسے ملک کو، جو مذاکرات میں ثالث ہے، حملے کا سامنا کرنا پڑے تو آئندہ کون سی ریاست غیرجانبداری کے ساتھ امن عمل میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوگی؟ یہ رویہ اسرائیل کو تو وقتی عسکری برتری دے سکتا ہے لیکن پورے خطے کو مزید عدم اعتماد اور بداعتمادی کی دلدل میں دھکیل دے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی خدشہ بڑھ گیا ہے کہ مستقبل میں کسی اور خلیجی ملک پر اسی نوعیت کا حملہ ہو سکتا ہے جس سے ایک بڑی علاقائی جنگ چھڑنے کا امکان پیدا ہوگا۔امریکہ کے لیے بھی یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ قطر وہی ملک ہے جس نے طویل عرصہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میزبانی کی، جہاں سے امریکی مفادات کو کئی مواقع پر فائدہ پہنچا۔ اگر اس کی سرزمین پر اسرائیلی بمباری کو برداشت کر لیا گیا تو یہ نہ صرف واشنگٹن کی ساکھ کو متاثر کرے گا بلکہ اس کے عرب اتحادیوں کو بھی یہ تاثر ملے گا کہ امریکہ ان کی خودمختاری کی ضمانت دینے میں سنجیدہ نہیں۔ یہ تاثر خطے میں چین اور روس جیسے دیگر عالمی کھلاڑیوں کو مزید جگہ فراہم کرے گا جو اپنی پالیسیوں میں خود کو “مداخلت نہ کرنے” کے اصول پر پیش کرتے ہیں۔عرب دنیا کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے ردعمل کو بیانات اور قراردادوں کی سطح سے نکال کر عملی میدان میں لے آئے۔ اگر عرب لیگ اور او آئی سی واقعی اپنی حیثیت منوانا چاہتی ہیں تو انہیں سفارتی دباؤ کے ساتھ ساتھ اقتصادی اقدامات پر بھی غور کرنا ہوگا۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ، تجارتی تعلقات کی معطلی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اسرائیل کو تنہائی کا شکار بنانے جیسے اقدامات ہی وہ عملی قدم ہیں جو تل ابیب کو رکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ خطے میں عام عوام کی رائے اب حکومتوں کے لیے نظر انداز کرنا آسان نہیں رہی۔ غزہ پر بمباری اور اب دوحہ پر حملے نے عرب سڑکوں پر ایک بار پھر غصے اور بے بسی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ اگر حکومتیں اپنے عوام کے جذبات کو نظر انداز کرتی رہیں تو اندرونی عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔ یوں اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ صرف بیرونی تنازعات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عرب ریاستوں کے اندرونی سیاسی توازن کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔اسرائیل کی یہ کارروائی دراصل ایک پیغام ہے کہ اب کوئی بھی ملک محفوظ نہیں۔ لیکن یہ پیغام صرف خوف کی علامت نہیں ہونا چاہیے بلکہ خطے کی قیادت کے لیے بیداری کا لمحہ بھی ہونا چاہیے۔ اگر اس موقع پر اجتماعی حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو خطے کی خودمختاری، امن اور سفارت کاری سبھی دائو پر لگے رہیں گے۔ دوحہ پر بمباری کو معمولی واقعہ سمجھنا خطرناک ہوگا؛ یہ مستقبل کے لیے ایک انتباہ ہے کہ جنگ کی آگ کسی بھی لمحے کسی بھی دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔
