پاکستان کی عدلیہ ایک بار پھر شدید بے اعتمادی اور اندرونی خلفشار کا شکار نظر آ رہی ہے۔ یہ محض مبصرین یا تنقید کرنے والے حلقوں کی رائے نہیں بلکہ وہ جج صاحبان بھی اس بے چینی کو زبان دے رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں قانون کے شعبے میں گزاری ہیں۔ اگر وہ اس نظام کے بگڑتے ہوئے ڈھانچے پر سوال اٹھا رہے ہیں تو ان خدشات کو سرسری یا محض ذاتی اختلاف سمجھ کر مسترد کرنا خود عدلیہ کے وقار کے لیے خطرہ ہے۔تشویش کی اصل جڑ یہ ہے کہ قانون، ضابطے اور عدل محض حکومتی آلات نہیں بلکہ وہ بنیاد ہیں جن پر معاشرے میں اعتماد، انصاف اور سکون کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر یہی بنیادیں متزلزل ہوں تو انصاف کا خواب ٹوٹ جاتا ہے۔ حالیہ خط و کتابت اور بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ عدلیہ کے اندر سے ہی ان بنیادوں کو کمزور کرنے والے اقدامات کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ سینئر ترین جج کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھا گیا خط، جو فل کورٹ میٹنگ سے ذرا پہلے منظر عام پر آیا، چھ ایسے فیصلوں کی نشاندہی کرتا ہے جہاں ضابطوں کو نظر انداز کیا گیا یا ان کی دھجیاں اڑائی گئیں۔سب سے اہم نکتہ وہی ہے جس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجرز کمیٹی سے ہے۔ جسے گزشتہ چیف جسٹس نے عدلیہ میں اجتماعی مشاورت کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا تھا لیکن موجودہ انتظامیہ نے اسے محض اس لیے بائی پاس کر دیا کہ یہ چیف جسٹس کے دفتر کے لیے غیر آرام دہ ثابت ہو رہی تھی۔ یہ طرزِ عمل اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ فیصلے شخصیات کی ترجیحات پر ہو رہے ہیں نہ کہ ادارہ جاتی اصولوں پر۔مزید یہ کہ جب سپریم کورٹ رولز 2025 کو فل کورٹ میٹنگ سے قبل ہی سرکولیشن کے ذریعے منظور کرایا گیا تو چار سینئر ججوں نے میٹنگ میں شرکت سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ ایسے قواعد، جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے امور کو منظم کریں گے، کھلی بحث اور اجتماعی غور کے بعد منظور ہونے چاہئیں۔ ان کا یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ عمل اور مواد دونوں اعتبار سے یہ قواعد غیر شفاف اور ناقابل قبول طریقے سے لائے گئے۔یہ صورتحال بتاتی ہے کہ سپریم کورٹ اندر سے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ دراڑیں باہر سے نہیں بلکہ اندر کے فیصلوں اور رویوں سے پیدا ہوئیں۔ عدلیہ کے جج اگر خود اپنے ہی بنائے گئے اصولوں اور ضابطوں پر عمل نہیں کریں گے تو پھر معاشرے کے دیگر ادارے ان سے انصاف کی توقع کیوں رکھیں گے؟اب یہ لمحہ فکریہ ہے۔ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے شفافیت، اجتماعی مشاورت اور ضابطوں کی پابندی کو پہلی ترجیح بنائے۔ بصورت دیگر انصاف کی عمارت اندر سے کھوکھلی ہوتی جائے گی اور عوام کا اعتماد اس ادارے سے مکمل طور پر اٹھ جائے گا۔ یہ المیہ صرف عدلیہ کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہوگا۔
