آج کی تاریخ

سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی

تازہ ترین

کھیل، سیاست اور دشمنی کا سایہ

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ تنازعات اور کشیدگی سے جڑے رہے ہیں۔ یہ کشیدگیاں کبھی سرحدی جھڑپوں کی صورت میں سامنے آئیں، کبھی سفارتی سطح پر سخت بیانات کے تبادلے میں، اور کبھی عالمی اداروں کے پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے خلاف صف بندی میں۔ لیکن ان تمام تر تلخیوں کے باوجود ایک عنصر ایسا تھا جو کبھی کبھار برف پگھلانے اور عوام کو قریب لانے کا ذریعہ بنتا رہا، اور وہ ہے کرکٹ۔ کرکٹ دونوں ملکوں کے عوام کے لیے محض ایک کھیل نہیں بلکہ جذبات، شناخت اور قومی وقار کا معاملہ ہے۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کھیل بھی سیاست کے زیرِ اثر آ گیا ہے اور اب اس کی روح کو زخمی کیا جا رہا ہے۔ ایشیا کپ کا حالیہ میچ اس کی تازہ ترین مثال ہے جس نے ثابت کیا کہ بھارت کھیل کو دشمنی کے آلے میں بدل چکا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب کھیل کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا ہو۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آخری دوطرفہ سیریز 2012 میں کھیلی گئی تھی اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے کھلاڑی صرف عالمی یا ایشیائی سطح کے ٹورنامنٹس میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے ہیں۔ ہر بار پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ موقف اپنایا کہ کھیل اور سیاست کو الگ ہونا چاہیے، لیکن بھارت نے اس موقف کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حالیہ میچ میں جس طرح ہینڈ شیک کی روایت توڑی گئی اور جس طرح بھارتی بلے بازوں نے میچ کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کو مبارک باد دینے کے بجائے بھاگنے میں عافیت جانی، یہ سب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت کھیل کے تقدس کو پامال کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ بھارتی کپتان سوریہ کمار یادو نے سیاسی بیان دے کر میچ کی جیت کو اپنی فوج کے نام کیا، جو کہ آئی سی سی کے ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے احتجاج اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ بھارت اپنے اس رویے کو بدلنے والا نہیں۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر عالمی ادارے، خاص طور پر آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل، بھارت کے اس رویے پر خاموش کیوں ہیں؟ کیا کھیل کے عالمی منتظمین اس بات سے بے خبر ہیں کہ کھیل کی روح کو تباہ کیا جا رہا ہے؟ یا پھر بھارت کے اثرورسوخ نے انہیں خاموش کر رکھا ہے؟ اگر کھیل کو سیاست سے الگ رکھنے کے اصول پر عمل نہ کیا گیا تو پھر یہ کھیل محض دشمنی کا ایک اور میدان بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کو اپنی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے۔ صرف بیانات اور احتجاج کافی نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنی کرکٹ ٹیم کو یہ شعور دینا ہوگا کہ بھارت کے سیاسی کھیل کا سب سے بہترین جواب میدان میں اپنی شاندار کارکردگی کے ذریعے دیا جا سکتا ہے۔ دنیا ہمیشہ نتائج کو یاد رکھتی ہے، نہ کہ الزامات کو۔ اگر پاکستان اپنی جیت کے ذریعے جواب دے تو بھارت کے سیاسی بیانیے کی چمک خود بخود ماند پڑ جائے گی۔
یہاں ایک تاریخی پہلو پر بھی غور ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیل اور سیاست کا رشتہ نیا نہیں۔ 1950 اور 60 کی دہائی میں جب دونوں ممالک نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا تو یہ میچ سفارت کاری کی ایک نرم شکل سمجھے جاتے تھے۔ 1971 کی جنگ کے بعد کئی برس تک تعلقات منقطع رہے لیکن جب بھی تعلقات بحال ہوئے تو کرکٹ اس میں پہلا ذریعہ بنا۔ 1987 میں جنرل ضیاء الحق نے “کرکٹ ڈپلومیسی” کے ذریعے بھارت کا دورہ کیا، اور اسی دہائی میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے بھارت کو کئی بار شکست دی، جو عوامی سطح پر ایک نفسیاتی سکون کا باعث بنی۔ 2004 میں مشرف دور میں جب دونوں ممالک کے تعلقات میں نرمی آئی تو لاہور اور دہلی میں کرکٹ میچوں نے دونوں ممالک کے عوام کو قریب کیا۔ یہ لمحے اس بات کا ثبوت تھے کہ کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ تعلقات کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
مگر 2012 کے بعد سے حالات بدل گئے۔ بھارت نے ہر بار دہشت گردی کے واقعات کا بہانہ بنا کر دوطرفہ سیریز سے انکار کیا، یہاں تک کہ آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ سب کھیل کو سیاست کا غلام بنانے کی مثالیں ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری اس غیر منصفانہ رویے پر خاموش ہے اور اسے محض دونوں ممالک کی باہمی کشیدگی قرار دے کر نظر انداز کر دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک کھیل دشمنی کی نذر ہوتا رہے گا؟ کب تک کھلاڑیوں کو سیاسی بیانات دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا؟ اور کب تک عالمی ادارے بھارت کی بے جا ضد کے سامنے خاموش رہیں گے؟ پاکستان کے عوام اور کھلاڑی دونوں ہی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بھارت کھیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لیکن شاید اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے۔ ہمیں دنیا کے سامنے یہ واضح کرنا ہوگا کہ اگر کھیل کو دشمنی کا آلہ بنایا جائے گا تو اس کے اثرات عالمی کرکٹ پر بھی پڑیں گے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کھیل کی دنیا بھی اب مکمل طور پر سیاست سے آزاد نہیں رہی۔ کھیل اور سیاست اب جڑواں حقیقتیں بن چکی ہیں۔ لیکن اگر اس جڑت کو منفی انداز میں استعمال کیا جائے تو اس کے نقصانات صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے کے کھیل اور نوجوانوں کے خواب متاثر ہوں گے۔ کھیل کا مقصد تعلقات بہتر بنانا اور عوام کو قریب لانا ہونا چاہیے، نہ کہ نفرتیں بڑھانا۔
پاکستان کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دشمنی اور کشیدگی اپنی جگہ، لیکن میدان میں جیت ہی اصل جواب ہے۔ بھارت کے کھلاڑی اگر ہاتھ نہ ملائیں، اگر سیاسی بیانات دیں تو ہمیں اپنی ٹیم کو اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ اپنی شاندار کارکردگی کے ذریعے دنیا کو بتا سکے کہ کھیل کا اصل حسن کیا ہے۔ کھیل سیاست کا غلام نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے دشمنیوں سے بالاتر ہو کر انسانوں کو جوڑنے کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اگر ہم یہ مقصد کھو بیٹھے تو کرکٹ بھی صرف ایک اور محاذ جنگ رہ جائے گی، اور اس کے ساتھ کھیل کی روح بھی دفن ہو جائے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں