ملتان (سٹاف رپورٹر) پرو وائس چانسلر، وائس چانسلر اور اہم عہدوں پر تعیناتیاں شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگیں۔ اور آج کل پنجاب بھر کی تمام تر یونیورسٹیوں میں لگائے جانے والے وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر حضرات کی تعیناتیوں میں گورنر پنجاب، وزیر اعلیٰ پنجاب، سرچ کمیٹی، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور سیکورٹی کلیئرنس پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے اور یہ تمام تر تعیناتیاں جن میں بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو گئے۔ خواتین یونیورسٹی ملتان کی ایکٹنگ چارج وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن کی حامل نکل آئیں۔ ایک سیکنڈ ڈویژن کی حامل ایکٹنگ چارج یا عارضی وائس چانسلر یونیورسٹی میں میرٹ کو کتنا فروغ دے پائیں گی۔ یہ یونیورسٹی سسٹم پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ یاد رہے کہ سیکنڈ ڈویژن ایکٹنگ چارج وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی بطور پرو وائس چانسلر تعیناتی کے وقت 3 سینئر موسٹ پروفیسرز کے نام بھیجے گئے تھے ان میں پروفیسر ڈاکٹر قمر رباب، پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ ارشاد اور سیکنڈ ڈویژن کی حامل پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ شامل تھیں۔ جن میں سے گورنر پنجاب نے خواتین یونیورسٹی ملتان کی پرو وائس چانسلر کے عہدے پر سیکنڈ ڈویژن کی حامل پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو نامزد کیا۔ خواتین یونیورسٹی ملتان کے ایکٹ کے سیکشن 11(9) کے تحت جب بھی وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہو گا تو پرو وائس چانسلر یہ عہدہ سنبھالیں گی۔ چنانچہ اتنی اہم نامزدگی کے وقت میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن کو پرو وائس چانسلر کے عہدے کے لیے نامزد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس خبر میں صداقت کے بارے میں موقف کے لیے جب خواتین یونیورسٹی ملتان کی پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ سے بذریعہ میڈیا کوآرڈینیٹر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن ہونا پرو وائس چانسلر یا وائس چانسلر کی تقرری کے معیار کو متاثر نہیں کرتاکیونکہ اعلیٰ تعلیمی عہدوں کے لیے بنیادی معیار متعلقہ فیلڈ میں اعلیٰ تعلیم، تدریسی و تحقیقی تجربہ، تعلیمی قیادت، اور انتظامی صلاحیتیں ہوتی ہیں، نہ کہ سکول سطح کی تعلیمی کارکردگی جبکہ پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی ایم اے میں تھرڈ پوزیشن اور ایم-فل میں فرسٹ پوزیشن ہے جبکہ ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کی BBA میں recruitment policy کے تحت تھرڈ ڈویژن بنتی ہے۔ ڈاکٹر کلثوم کی بطور پرو وائس چانسلر تعیناتی مکمل قانونی و انتظامی طریقہ کار کے مطابق ہوئی جس میں سرچ کمیٹی کی سفارشات اور گورنر پنجاب کی منظوری شامل ہے صرف میٹرک میں ایک سیکنڈ ڈویژن کی بنیاد پر کسی کی ساکھ کو مشکوک بنانا یا ان کی قابلیت پر سوال اٹھانا مناسب نہیں، خصوصاً جب وہ اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی قابلیت اور انتظامی مہارت کی حامل ہوں ، تعلیمی نظام میں میرٹ کا اطلاق مجموعی پروفائل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، جس میں تعلیمی ڈگریاں، ریسرچ پبلیکیشنز، یونیورسٹی سروس، اور پرفارمنس شامل ہوتی ہے، لہٰذا صرف میٹرک کی سطح کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر پرو وائس چانسلر کی تعیناتی پر سوال اٹھانا غیر متعلقہ اور غیر ضروری تشویش پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کا موقف تھا کہ ان کی BBA میں 3.07 CGPA ہے اور ایم بی اے میں 3.27 جی پی اے ہے۔ ڈاکٹر کلثوم پراچہ پوری سینڈیکیٹ کو نان پروفیشنل طریقے سے میری تعلیم کے بارے میں غلط گائیڈ کر رہی ہیں۔ جبکہ پرو وائس چانسلر کی تعیناتی کے وقت 3 خواتین کے پینل میں سے صرف میری بیرون ملک کی پی ایچ ڈی تھی اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کا تجربہ بھی تھا۔
