ملتان (سٹاف رپورٹر) پاکستان گزشتہ 46 سال سے حالت جنگ میں ہے اور اور 1971 کے آٹھ سال بعد ہی 1979 میں پاکستان کے مغربی بارڈر پر افغانستان میں محدود جنگ چھڑ چکی تھی اس کے اثرات پاکستان میں بھی آئے اور پاکستانی فوج مسلسل حالت جنگ میں رہی۔ ہماری فوج کے ساتھ ساتھ عوام بھی مسلسل دھماکوں، خودکش حملوں، خون ریزی، قتل و غارت اور دہشت گردی سے نمٹ رہےہیںاور اب یہ سب اس کیلئے روٹین کے معاملات بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات پاکستانی عوام کے لیے معمول کی خبریں ہیں ۔پاکستان کی دو نسلیں جنگی ماحول میں پیدا ہو کر جوان ہو چکی ہیں کہ جنہوں نے یہی کچھ دیکھا ہے، امن دیکھا ہی نہیں جبکہ دوسری طرف بھارت کے عوام اور فوج نے 1971 کے بعد کوئی جنگ نہیں دیکھی۔ اب نہ تو جنگ کی مسلسل تربیت بھارتی فوج کے پاس ہے اور نہ ہی بھارت کی عوام کا پاکستانی عوام کی طرح جنگ اور بد امنی کے حوالے سے حوصلہ دیکھنے میں آیا ۔یہی وجہ ہے پاکستانی عوام جنگ کو ایک معمول کا معاملہ لے کر ڈیل کر رہےہیں اور دوسری طرف بھارتی عوام اور بھارتی فوج کے اوسان خطا نظرآئے، ان کے طوطے اڑے ہوئےتھے اور ہندو تو خاص طور پر شدید قسم کے اعصابی دباؤ کا شکار نظرآئے۔ سپیس ٹیکنالوجی کے بعد اب بارڈرز پر جنگ کی اہمیت تو رہی نہیں لہٰذادونوں اطراف کے بارڈر ٹھنڈے جبکہ فضا گرم تھی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج اور پاکستانی عوام کا مورال اس کے سابقہ 46 سالہ تجربے اور حالات کی بنا پر بہت بلند رہا۔ دوسری طرف بھارتی فوج اور بھارتی عوام شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا نظرآئے جو ان کے الیکٹرانک میڈیا ،سوشل میڈیا اور دفاعی تجزیہ کاروں کے چہروں پر صاف لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ رہا بھارت کی نئی جنریشن یعنی زی جنریشن کا معاملہ تو اس میں خوف اور ڈپریشن کا عنصر بہت ہی زیادہ نمایاں تھا۔ بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں اور منصوبہ بندی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی پتہ چل چکا تھا کہ کہاں کہاں حملے کرنے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ حکومت پاکستان نے اس اطلاع پر بہاولپور، مرید کے اور شکرگڑھ میں جو دینی خدمت کے مراکز قائم تھے خالی کروا لئےتھے اور طلبہ کو گھر بھجوا دیا تھا۔ یہ بھارت کے سکیورٹی نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔پاکستان سے منہ توڑجواب کے نتیجے میں بھارتی عوام اور بھارتی تجزیہ کاروں کی توپوں کا رخ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف ہے اور دوسری طرف پاکستان کے عوام تمام تر اختلافات بھلا کر فوج کے پیچھے آکر کھڑی ہو گئےہیں۔ اگر دونوں ملکوں کے سوشل میڈیا تجزیہ کاروں سٹریٹ گوسپس کو دیکھا جائے تو بھارتی عوام اپنی قیادت پر تنقید کر دی ہوئی دکھائی دیتےہیں جبکہ پاکستانی عوام اپنی عسکری قیادت کے پیچھے کھڑی ہوئی دکھائی دے رہے ہیں جس سے پاکستانی افواج کا مورال بتدریج بلند ہو رہا ہے۔ ملکوں کے سوشل میڈیا کا طویل تقابلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل جنگ میں پوری طرح انوالو رہی جبکہ بھارت کی یوتھ مکمل طور پر لا تعلق وہ جنگی ماحول پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں اور ہمارا لئے یہ معمول کے معاملات ہیں اور قوم کا جنگ میں انوالو ہونا، افواج کا ساتھ دینا کامیابی کی پہلی اہم ترین سیڑھی ہےجس سے بھارت محروم ہے۔ بھارت کی طرف سے جنگ کا آغاز ہی پاکستان کےعوام پر حملوں سے ہوا اور پاکستان کی فوج کی طرف سے معمولی سا رد عمل سامنے آیا اور عام جگہوں پر تھوڑے سے ڈرون گرے تو بھارتی میڈیا کی چیخیں بلند اور ان کے حوصلے پست ہوگئے۔ بھارت نے مساجد پر حملے کیے تو ان کے لیے بڑا فخر تھا ۔آج ان کے ایک دو مندر معمولی سے تباہ ہوئے تو بھارت کا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا باقاعدہ ماتم کر رہا تھا۔ خوف ان کے چہروں سے عیاں نظرآیا۔
