ملتان (سٹاف رپورٹر) نشتر میڈیکل یونیورسٹی (این ایم یو) ملتان میں مظہر حسین بھٹہ کے پروموشن کیس میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ ان بے ضابطگیوں کی بنیاد پر سپیشل سیکرٹری (آپریشنز) سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن (SHC&ME) ڈیپارٹمنٹ نے تمام ذمہ دار افسران اور اہلکاروں کے خلاف باقاعدہ انکوائری کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ آڈیٹر جنرل پنجاب لاہور نے سال 2016-17 کے آڈٹ کے دوران مظہر حسین بھٹہ کے پروموشن کیس میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی۔ اس پر اُس وقت کے وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان نے آڈٹ پیرا نمبر 38 کی روشنی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ کیس کی تفصیلی چھان بین کی جا سکے۔ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر وائس چانسلر نے مظہر حسین بھٹہ کو 9 جون 2018 کو سٹینوگرافر (بی۔ ایس۔ 15) کے عہدے پر ڈی موٹ (تنزلی) کر دیا تھا۔ مظہر حسین بھٹہ نے اس فیصلے کے خلاف عدالتی کارروائی کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے رِٹ پٹیشن نمبر 9762/2017 لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں دائر کی، جس کے فیصلے کے مطابق یونیورسٹی سینڈیکیٹ نے اپنی پانچویں میٹنگ میں 17 دسمبر 2018 کو ان کی اپیل مسترد کر دی۔ بعد ازاںانہوں نے سینڈیکیٹ کے فیصلے کے خلاف گورنر پنجاب کے سامنے اپیل کی جسے گورنر نے 25 جولائی 2019 کو ابتدائی مرحلے میں ہی مسترد کر دیا۔ اس کے بعد مظہر حسین بھٹہ نے ایک اور رِٹ پٹیشن نمبر 13273/2019 لاہور ہائی کورٹ ملتان میں دائر کی جسے عدالت نے 22 نومبر 2021 کے فیصلے کے ذریعے نمٹا دیا۔ عدالت نے ہدایت دی کہ وائس چانسلر این ایم یو ملتان درخواست گزار کی نمائندگی کو قانون کے مطابق سنے اور خود فیصلہ کرے۔ عدالتی کارروائی کے بعد اُس وقت کے لیگل ایڈوائزر این ایم یو ملتان کی رائے پروائس چانسلر نے 17 جون 2022 کو مظہر حسین بھٹہ کو تاریخِ تنزلی سے بحال کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ (بی۔ ایس۔ 17) کے عہدے پر بحال کر دیا۔ تاہم محکمہ صحت کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ بحالی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی تھی، کیونکہ ’’پنجاب سول سرونٹس (اپائنٹمنٹ اینڈ کنڈیشن آف سروس) رولز 1974‘‘او’’پروموشن پالیسی 2010‘‘ کے تحت کسی بھی سرکاری ملازم کی ترقی صرف ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کی سفارش پر ممکن ہےجو کہ اس کیس میں عمل میں نہیں لائی گئی۔ مورخہ 28 اگست 2025 کے سرکاری احکامات میں واضح کیا گیا کہ مظہر حسین بھٹہ کی بحالی قانونی طور پر درست نہیں تھی، لہٰذا معاملے کی مکمل چھان بین ناگزیر ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ تفصیلی انکوائری کے ذریعے یہ تعین کیا جائے کہ غیر قانونی پروموشن کیس کو کس افسر یا اہلکار نے پراسیس کیا اور ترقی کے غیر مجاز احکامات کس نے جاری کیے۔ اس ضمن میں سپیشل سیکرٹری (آپریشنز) SHC&ME نے PEEDA ایکٹ 2006 کی دفعہ 3 مع دفعہ 13 کے تحت ان تمام متعلقہ افسران کے خلاف باقاعدہ محکمانہ انکوائری شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ مزید برآںرپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مظہر حسین بھٹہ کے نام پر دفتر نمبر 7952/NMU مورخہ 26 اپریل 2024 کو جاری کردہ تجربہ سرٹیفکیٹ میں غلطیاں پائی گئی ہیں، لہٰذا اسے اپنی اجرا کی تاریخ سے منسوخ اور واپس لینے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ یہ کیس این ایم یو کے انتظامی ڈھانچے اور ترقیاتی نظام پر کئی سوالات اٹھا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ:وی سی سمیت ڈاکٹرزکوسزائوں کی منظوریا
ملتان (وقائع نگار ) نشتر ہسپتال ملتان کے ڈائیلاسز یونٹ میں عملہ کی مبینہ غفلت کے باعث 30 سے زائد مریضوں میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہونے کے سنگین واقعہ کی انکوائری رپورٹس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی سمیت متعدد ڈاکٹروں کے خلاف محکمانہ سزاؤں کی منظوری دے دی ہے،یہ کارروائی سپیشل برانچ کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور اس حوالے سے ہونے والی مختلف محکمانہ انکوائریوں کی بنیاد پر کی گئی ہے ، وزیراعلیٰ کی منظوری سے سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے رپورٹ کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر مہناز خاکوانی کو ایک سال کی سابقہ سروس ضبط کرنے کی سزا دی گئی ہے،نیفرالوجی شعبہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس کو جبری ریٹائرمنٹ کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹرمحمد کاظم کو ایک سال کے لیے انکریمنٹ روکنے کی سزا دی گئی ہے،اسی طرح ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر پونم خالد کو تین سال کے لیے نچلے عہدے اور پے سکیل پر تنزلی کی سزا دی گئی ہے،دوسری جانب ڈاکٹر ملیحہ جوہر زیدی، ڈاکٹر عالمگیر ملک اور ہیڈ نرس ناہید پروین کو الزامات سے بری قرار دے دیا گیا ہے، واقعہ کی متعدد انکوائریوں میں یہ بات سامنے آئی کہ ڈائیلاسز یونٹ میں حفاظتی اصولوں کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں ، ایس او پیز پر عملدرآمد میں سنگین غفلت، مشینوں کی ناکافی نگرانی اور ایچ آئی وی کیس رپورٹ نہ کرنے جیسے امور کے باعث مریض ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوئے، وزیر اعلیٰ نے واقعہ کو عوامی صحت سے متعلق سنگین غفلت قرار دیتے ہوئے متعلقہ افسران کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کیے۔







