آج کی تاریخ

سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی

تازہ ترین

مہنگی ایل این جی کھپانے کیلئے 30 لاکھ کنکشن چیلنج، گیس کمپنیاں ناکام، 20 ارب روپے میٹر پر درکار

اسلام آباد (بیورو رپورٹ) وفاقی حکومت نے ایل این جی کو کھپانے اور مقامی گیس کی بہتر قیمت وصول کرنے کے لیے30 لاکھ گیس کنکشن دینے کا اعلان تو کر دیا ہے مگر دونوں سوئی گیس کمپنیاں میٹر اور سروس لائن لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔ ایل این جی کا ٹیرف عام صارف کی کمر کو توڑ کر رکھ دے گا۔عام گیس کی قیمت 1836 جبکہ ایل این جی کی قیمت 3034 روپے فی بی ٹی یو ہے۔جب اس میں یو ایف جی(غیر تخمینہ شدہ گیس) شامل ہوگا تو یہ قیمت 4 ہزار روپے کے قریب پہنچنے کا امکان ہے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ س ناردرن کا یو ایف جی اس وقت 10 فیصد ہے۔مگر وہ اسے ساڑھے آٹھ فیصد کلیم کرتے ہیں جب کہ سوئی سدرن کا غیر اعلانیہ یو ایف جی 20 فیصد سے زیادہ ہے۔مگر وہ اسے 15 فیصد کلیم کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے باعث کمپنیاں یو ایف جی کو کم دکھاتی ہیں۔اگر کوئی تھرڈ پارٹی یہ اڈٹ کرے تو ہوش ربا یو ایف جی سامنے آئے۔ اس وقت ایل این جی کا ٹرانسمیشن یو ایف جی اشاریہ تین فیصد ہے۔مگر جیسے ہی ایل این جی سوئی ناردن کے 149242 کلومیٹر ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں ڈالی جائے گی یہ یو ایف جی بل 12 اور سوئی سدرن کے 37 ہزار کلومیٹر نیٹ ورک میں ڈالی جائے گی تو 22 فیصد سے اوپر چلا جائے گا۔ایک فیصد یو ایف جی کا مطلب ڈھائی سے تین ارب روپے ہے۔یہ اضافی رقم یقینی طور پر صارفین پر ڈالی جائے گی۔اور انہی سے اوگرا ایکٹ کے تحت وصول کی جائے گی۔دونوں کمپنیوں کی یہاں پر چاندی ہو جائے گی۔کیونکہ ماضی میں وہ غیر اعلانیہ ایل این جی ڈومیسٹک نیٹ ورک میں ڈالتے تھے اور پھر اسے مختلف خفیہ طریقوں سے وصول کیا جاتا رہا ہے۔گیس کمپنیاں یہ سب کچھ حکومتی ایماں پر کرتی آئی ہیں۔ پانچ سال سے زائد عرصے سے گیس کنکشن پر پابندی کے باعث دونوں گیس کمپنیوں کے پاس بہت ہی محدود میٹرز پڑے ہیں۔جبکہ سروس لائن نہ ہونے کے برابر ہیں۔30 لاکھ نئے میٹرز کی خریداری ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس خریداری کے لیے دونوں کمپنیوں کو کم از کم 20 ارب روپے درکار ہوں گے۔جبکہ پیپرا رولز کی وجہ سے اس میں تاخیر آسمان کا لکھا ہے۔دونوں کمپنیوں کے پاس جو چند ہزار میٹرز پڑے ہیں وہ بہت ہی طاقتور لوگوں کو دیے جائیں گے۔جس میں ہمارے معزز ممبران پارلیمنٹ بابو بورڈ کے اراکین اور گیس کمپنیوں کے اعلی افسران سر فہرست ہوں گے۔دونوں گیس کمپنیوں کے صارفین کی تعداد اس وقت ایک کروڑ سے زائد ہے جس میں 73 لاکھ سے زیادہ کنکشن صرف سوئی ناردرن کے ہیں۔ جبکہ 37 لاکھ سے زائد کنکشن سوئی سدرن کے ہیں۔ اتنی بڑی خریداری کے لیے دونوں کمپنیوں کو کم از کم دو سال کا عرصہ لگے گا۔ جس کی ایک وجہ سوئی ناردرن کے ایم ڈی اور سوئی سدرن کے قائم مقام ایم ڈی کا فائننس گروپ سے ہونا بھی ہے۔فائننس کے لوگ پرکیورمنٹ تیزی سے کرنے کی بجائے محتاط طریقے سے کرتے ہیں۔جبکہ سوئی سدرن پر 9 سال قابض بورڈ اف ڈائریکٹر اور ان کی مینجمنٹ کہ ناقص کارکردگی بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی اس وقت ایک ڈوبتا جہاز ہے۔عالمی سطح پر گیس کمپنیوں کو صارفین سے دو فیصد یو ایف جی وصول کرنے کی اجازت ہے۔پاکستان میں یہ بینچ مارک پانچ فیصد پر ہے۔اس وقت دونوں گیس کمپنیوں کی مالیاتی صورتحال انتہائی خراب ہے۔جس کی ایک بڑی وجہ ایل این جی کی ادائیگیاں ہیں۔حکومت مقامی گیس اور ایل این جی کو مکس کر کے جب تک ایک نئی قیمت مقرر نہیں کرتی وہ اس بحران سے نہیں نکل سکتی۔گزشتہ 17 سال سے ویٹڈ ایوریج فارمولا سیاسی خرمستیوں کی وجہ سے لاگو نہیں جا سکا ہے۔ مقامی گیس اور ایل این جی کے درمیان اس وقت تفاوت 65 فیصد ہے۔اسے گیس مکس کے ذریعے ختم کر کے ایک اوسط سطح پر لایا جا سکتا ہے۔تمام گھریلو کمرشل اور صنعتی صارفین کے لیے گیس کی قیمت ایک ہی ہونی چاہیے۔ حکومت کا سسٹم گیس اور ایل این جی گیس کی الگ الگ قیمتیں مقرر کرنا ، انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ گیس مکس کے ذریعے قیمت میں توازن قائم ہو سکتا ہے۔جبکہ تین سال پہلے صورتحال اس کے برعکس تھی۔ سوئی ناردرن گیس کمپنی ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں بہترین گیس پریشر رکھنے کے باوجود بھی اپنا یو ایف جی کنٹرول کیے ہوئے تھے۔اب وہ بجلی کی طرح تین سے چار ٹائم گیس بند کرتی اور کھولتی ہےاس دوران گیس بند ہوتی ہے۔ اس دوران کم از کم گیس پریشر پھر بھی رکھا جاتا ہے۔اس کے ذریعے یو ایف جی نیچے نظر ارہا ہے۔ اگر پریشر برقرار رہے تو سوئی نادرن کا یو ایف جی بھی 12 فیصد سے اوپر ہو۔جبکہ سوئی سدرن کا یو ایف جی 30 فیصد پر پہنچ جائے۔اسی لیے سوئی گیس کے کم پریشر کی شکایات اج کل عام ہیں۔یہ عمل بتاتا ہے کہ دونوں کمپنیوں کا مستقبل روشن نہیں ہے۔وہ ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک کی بحالی کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی۔تین پانچ اور چھ دہائیوں پرانے نظام کی بحالی کے لیے بہت کثیر سرمایہ درکار ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں