بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فِچ کی جانب سے پاکستان کی غیر ملکی کرنسی میں طویل مدتی کریڈٹ ریٹنگ کو “سی سی سی پلس” سے بڑھا کر “بی مائنس” کر دینا بلاشبہ ایک غیر معمولی اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ ایسی خبروں کے پس منظر میں، جہاں ملکی معیشت کئی برسوں سے عدم استحکام، مہنگائی، بیرونی قرضوں کے بوجھ اور مالی بدانتظامی جیسے مسائل کا شکار رہی ہے، یہ بہتری ایک خوش آئند جھلک فراہم کرتی ہے۔ یہ محض ایک درجہ بندی نہیں، بلکہ اس میں ایک پیغام مضمر ہے کہ دنیا کی نگاہ میں پاکستان کی اقتصادی سمت میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کریڈٹ ریٹنگ کسی ملک کی معاشی صحت، اس کی مالیاتی شفافیت اور قرض واپس کرنے کی استعداد کا ایک عالمی پیمانہ ہے۔ جب فِچ جیسی معتبر ایجنسی کسی ملک کی ریٹنگ بہتر کرتی ہے، تو اس سے نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا اعتماد بڑھتا ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی وہ ملک ایک پُرکشش منزل بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے نے حکومتی ایوانوں میں اطمینان کی لہر دوڑا دی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے “معاشی ترقی کا ثبوت” قرار دیا، جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس کو ملک کی اقتصادی پالیسیوں پر عالمی اعتماد سے تعبیر کیا۔ بلاشبہ یہ مثبت بیانات ایک خاص سیاسی زاویہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے پس پردہ کچھ زمینی حقائق بھی کارفرما ہیں۔
فِچ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے حالیہ مہینوں میں جن اقدامات کو بروئے کار لایا، ان میں مالی نظم و ضبط کو اولیت دینا، غیر ضروری اخراجات میں کمی، اور ٹیکس اصلاحات قابل ذکر ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدوں پر عملدرآمد، اور مالیاتی شفافیت کے فروغ نے بھی اس مثبت تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سب سے قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ جب ملک ایک وقت دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، تو اس بحران کے دوران کیے گئے اقدامات نے نہ صرف معیشت کو سہارا دیا بلکہ عالمی اداروں کی آنکھوں میں بھی پاکستان کا اعتماد بحال کیا۔ رپورٹ کے مطابق، حکومت نے بجٹ خسارے کو کم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں یہ خسارہ سات فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد کے قریب آ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پرائمری سرپلس – یعنی حکومتی آمدن اور اخراجات کا وہ فرق جس میں قرضوں کی ادائیگی شامل نہ ہو – دو فیصد کے ہدف تک پہنچ چکا ہے، جو ایک اہم سنگ میل ہے۔
مالیاتی پائیداری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کا محدود ٹیکس نیٹ ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کروڑوں افراد آمدنی پیدا کرتے ہیں لیکن محض چند لاکھ افراد باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں، اصلاحات کا نفاذ ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ فِچ کی رپورٹ میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے کو سراہا گیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف آمدن میں اضافہ کرے گا بلکہ اس سے ٹیکس کلچر کو وسعت دینے میں بھی مدد ملے گی۔ تاہم، یہ امر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ سیاسی دباؤ، بیوروکریٹک مزاحمت اور زمینی حقائق کے باعث اکثر سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر حکومت نے واقعی دیرپا بہتری کی راہ اپنانی ہے، تو اسے ان اقدامات کو محض کاغذی خانہ پُری تک محدود رکھنے کے بجائے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
پاکستان کی کل قومی آمدنی کے مقابلے میں اس کا مجموعی قرضہ اب بھی غیرمعمولی حد تک بلند ہے۔ فِچ کی رپورٹ کے مطابق، حکومتی قرضوں کا جی ڈی پی سے تناسب کم ہو کر 67 فیصد پر آ گیا ہے، جو کہ ایک مثبت علامت ہے۔ مگر یہ تناسب اب بھی ان ممالک سے زیادہ ہے جنہیں ’بی‘ درجہ حاصل ہے، جن میں عمومی طور پر یہ شرح 50 فیصد سے کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بہتری ہوئی ہے، لیکن خطرات ابھی ٹلے نہیں۔ مزید برآں، آئندہ مالی سال میں افراطِ زر میں کمی کی توقع کے ساتھ قرضوں کے بوجھ میں ایک عارضی اضافہ بھی پیش گوئی کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو مستقل بنیادوں پر آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کی روش اپنانا ہوگی۔
ملکی معیشت کے لیے سب سے بڑی آزمائش افراطِ زر رہا ہے، جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ تاہم، فِچ کی پیش گوئی کے مطابق آئندہ مالی سال میں افراطِ زر کی شرح اوسطاً پانچ فیصد تک آ سکتی ہے، جو کہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اگر واقعی ایسا ہوا، تو اس کے اثرات عوامی سطح پر محسوس کیے جائیں گے – قوتِ خرید میں اضافہ ہوگا، طلب بڑھے گی، اور کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 12 فیصد پر برقرار رکھنا بھی ایک دانشمندانہ قدم ہے، جو مہنگائی پر قابو پانے اور معیشت میں توازن قائم رکھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس توازن کو برقرار رکھنا ایک مسلسل چیلنج ہوگا، خاص طور پر اگر عالمی سطح پر تیل یا اجناس کی قیمتوں میں دوبارہ اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان کی بیرونی پوزیشن میں بھی بہتری آئی ہے، جو رواں مالی سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں 700 ملین ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بہتری ترسیلات زر میں اضافہ اور درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی مرہونِ منت ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درآمدات دوبارہ بڑھتی ہیں، تو یہ توازن بگڑ سکتا ہے۔ فِچ کی پیش گوئی کے مطابق، اگلے چند برسوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہے گا، جو ایک مستحکم معیشت کی علامت ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے بھی صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔ مارچ 2025 تک ان ذخائر کا حجم 18 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے، جو 2023 کے اوائل میں محض 8 ارب ڈالر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ حصہ چینی بینکوں کی سویپ لائنز اور دیگر قرضوں پر مشتمل ہے، مگر مجموعی ذخائر کی سطح بیرونی استحکام کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
معاشی میدان میں کامیابیاں اسی وقت دیرپا ثابت ہوتی ہیں جب انہیں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کی پشت پناہی حاصل ہو۔ بدقسمتی سے، پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں ایک حکومت نے شروع کی گئی اصلاحات کو دوسری حکومت نے ادھورا چھوڑ دیا، یا نئے سیاسی مفادات کے تحت معاہدوں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ فِچ نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر سیاسی اتفاق رائے نہ رہا، تو یہ مثبت رجحان قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسی صورتحال میں، نہ صرف ریٹنگ واپس نیچے آ سکتی ہے، بلکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی برآمدات بالخصوص ٹیکسٹائل کی صنعت کا انحصار مغربی ممالک پر ہے۔ اگر عالمی سطح پر طلب میں کمی آتی ہے، یا تجارتی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، تو ان کا براہِ راست اثر ہماری برآمدی آمدن پر پڑے گا۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ تجارتی تنوع پر زور دے، نئی منڈیاں تلاش کرے، اور برآمدات کے دائرہ کار کو وسعت دے۔
فِچ کی رپورٹ بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک خوشگوار لمحہ ہے، لیکن یہ صرف ایک دروازہ ہے — اس کے پار ایک طویل اور مشکل راستہ ہے، جس پر کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب نیت صاف ہو، ارادہ پختہ ہو، اور عمل میں تسلسل ہو۔ یہ درجہ بندی ایک نکتۂ آغاز ہے، اختتام نہیں۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اپنے ٹیکس نظام کو مزید شفاف اور وسیع بنائے، توانائی کے شعبے میں عملی اصلاحات کرے، اور سب سے بڑھ کر تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے شعبوں پر سرمایہ کاری کرے۔ اعداد و شمار میں بہتری کا فائدہ صرف اسی وقت ہوگا جب اس کے ثمرات عام شہری تک پہنچیں۔ یہ وقت جذباتی بیانات یا وقتی خوشی کا نہیں، بلکہ سنجیدہ غوروفکر، مستقل مزاجی، اور قومی مفاد میں فیصلے کرنے کا ہے۔ اگر ہم نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا، تو شاید آئندہ کوئی ریٹنگ ایجنسی ہمیں یہ موقع دوبارہ نہ دے۔
