آج کی تاریخ

عارضی وائس چانسلرز وائسرائے بن بیٹھے،غیر قانونی فیصلے، ڈاکٹر کامران پر نوازشات،3 جامعات کا چارج

ملتان (سٹاف رپورٹر) ملک بھر کی بیشتر یونیورسٹیوں میں قائم مقام اور عارضی چارج کے حامل وائس چانسلرز ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اور صوبائی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کی واضح ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے بعض ایسے غیر قانونی فیصلے دھڑلے سے کر رہے ہیں جن کا سرے سے انکے پاس اختیارہی نہیں ہے اور دنیا بھر میں تعلیم سے وابستہ شخصیات کی طرف سے قواعد و ضوابط کے برعکس تعلیمی اور تدریسی اقدامات کو انتہائی قابل اعتراض اور غیر اخلاقی حرکت سمجھا جاتا ہے کیونکہ وائس چانسلرز کے لیے مہذب دنیا نے جو جملہ متعارف کروایا ہے اس سے وائس چانسلر کی شان، کردار اور نوجوانوں کی کردار سازی میں اس کا لائف سٹائل اس ایک جملے میں پرو دیا گیا ہے جس کسی نے بھی وائس چانسلر کے لیےFather of the City کا ٹائٹل منتخب کیا ہے۔ مہذب دنیا کے تقریباً تمام وائس چانسلرز اس ٹائٹل کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ چلتے پھرتے علم و آگاہی کا نمونہ بن جاتے ہیں اس کے برعکس پستی کی طرف جاتی ہوئی اخلاقیات کے حامل معاشروں میں جن میں پاکستان وکٹری سٹینڈ کی درجہ بندی پر بتدریج ترقی کے زینے چڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، کہ اکثر وائس چانسلرز تعلیمی ہستیاں کم اور اپنے مزاج میں تھانے دار جیسے رویے اپنائے ہوئےہیں ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پابندی ہے کہ قائم مقام وائس چانسلرز محض روزانہ کے معاملات کو دیکھیں گے۔ کوئی تعمیر و مرمت نہیں کروائیں گے ۔ اساتذہ اور غیر تدریسی سٹاف کی ترقی و تنزلی نہیں کریں گے کوئی بڑا مالیاتی فیصلہ نہیں کریں گے۔ مگر پاکستان کے اکثر قائم مقام وائس چانسلر حضرات چارج لیتے ہی اپنے دماغ سے قائم مقام کا لفظ از خود ہی کھرچ دیتے ہیں ۔پھر جہاں جہاں نہیں کریں گے لکھا ہوا ہے اسے بھی مٹا کر ” کریں گے، کریں گے اور کریں گے” نظر نہ آنے والی سیاہی سے لکھ ڈالتے ہیں جو صرف ان کو نظر آتا ہے۔ نہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو نظر آتا ہے ، نہ وفاقی وزارت تعلیم کی عقابی نگاہ اس پر پڑتی ہے، نہ صوبائی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کسی قسم کا نوٹس لیتے ہیں اور نہ ہی ہائر ایجوکیشن کے صوبائی محکموں اور وزارتوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد رہتی ہیں۔ منتخب نمائندے اسی ایک بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ انہیں سینڈیکیٹ کی ممبرشپ مل گئی ہے۔ ان کی اکثریت نے نہ ایجنڈا پڑھنا ہوتا ہے اور نہ ان کو سمجھ آتا ہے اور نہ وہ کسی سمجھدار کی خدمات لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مہذب دنیا کے سیاستدانوں نے اپنی رہنمائی کے لیے ہر شعبہ زندگی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی خدمات حاصل کی ہوتی ہیں اور یہی خدمات پاکستان میں لاکھوں پڑھے لکھے مفت دینے کو تیار ہیں مگر سیاستدان لینے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایکٹنگ وائس چانسلرز چارج سنبھالتے ہی ریگولر وائس چانسلر کی آمد کے سفر کو طول دینے کے لیے سیاستدانوں اور طاقتوروں کی در کی غلامی شروع کر دیتے ہیں ، ان کی ساری توجہ سیٹ بچانے پر مذکور ہوتی ہے اور یونیورسٹیاں بچانے پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ جہاں کہیں سفارش آ جائے یا جہاں ان کو کوئی فا ئدہ نظر آئے تو وہ ہر رکاوٹ عبور کر جاتے ہیں اور جہاں رکاوٹ ڈالنی ہو تو ان کی ٹیبل پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خطوط لوگوں کو دکھانے اور اپنی بے بسی ظاہر کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان جس کا اپنا کیمپس بھی نہیں اور جو کہ چند کمروں پر مشتمل یونیورسٹی ہے کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد کامران پر سرکاری نوازشات کا یہ عالم ہے کہ ان کےپاس ایک طرف گزشتہ 6 ماہ سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر کا اضافی چارج ہے جس کا ٹوٹل سٹاف 5000 جبکہ طلباء و طالبات کی تعداد 40000 ہے۔ محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سٹاف کی تعداد 150 کے قریب ہےجبکہ مزید نوازشات کرتے ہوئے ان کو گزشتہ ماہ ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی کا بھی قائم مقام وائس چانسلر بنا دیا گیا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں