آج کی تاریخ

غلط حکومتی فیصلے، ذخیرہ اندوزی، گندم بحران منڈلانے لگا، 3800 روپے من تک امپورٹ کا امکان

ملتان (میاں غفار سے) فرضی اعداد و شمار کے دھوکے سے غلط فیصلے کروا کر حکومت کو بے بس کرنے والے ذخیرہ اندوز مافیا نے جہاں پاکستان کے کسان اور ملکی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے وہیں پر آئندہ مالی سال کے دوران گندم کے شدید بحران کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور اس بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ذخیرہ اندوز منہ مانگے ریٹس پر جہاں گندم فروخت کریں گے اور گندم کی متوقع شدید قلت کے باعث ذخیرہ اندوز بلیک مارکیٹ میں گندم کے منہ مانگے دام وصول کریں گے وہیں پر گندم کی قلت کے باعث آنے والے مہینوں میں حکومت پاکستان کو گزشتہ سالوں کے نسبت دگنی سے بھی زیادہ گندم امپورٹ کرنی پڑے گی۔ اس تمام صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جس حکومت نے کاشتکار سے تین ہزار سے بھی کہیں کم ریٹ پر بھی گندم نہیں خریدی اب وہی حکومت اگلے چند ماہ میں تقریباً 3800 روپے فی من کے حساب سے گندم امپورٹ کرے گی اورزر مبادلہ کی کمی کے شکار ملک کو 700 سے 900 ارب روپیہ اس امپورٹ پر صرف کرنا پڑے گا۔ اس وقت بین الاقوامی منڈی میں گندم کی قیمت 240 ڈالر فی ٹن ہے جو کہ پاکستانی منڈی کے حساب سے 2700 روپیہ فی من بنتی ہے اور رواں سال اس عالمی ریٹ کے مقابلے میں پاکستانی گندم چھ سے سات سو روپے فی من کم ریٹ پر فروخت ہوئی ہے جسے حکومت نے نہیں خریدا اور اب جب کہ حکومت کو عالمی منڈی سے گندم خریدنی پڑے گی تو وہ اگر حکومت 2700 روپے فی من یعنی 240 ڈالر فی ٹن کے حساب سے بھی خریدے تو اس پر فی ٹن اخراجات تقریباً 50 سے 52 ڈالر کے قریب ہوں گے جو کہ پاکستانی کرنسی کے حساب سے 560 سے 580 روپے فی من اخراجات بنتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ایف او بی و دیگر اخراجات اور کراچی پورٹ سے امپورٹ شدہ گندم کی ملک بھر میں سپلائی پر کم و بیش 500 روپے فی من تک اخراجات ہو جاتے ہیں۔ اگر اس صورتحال کو سامنے رکھا جائے پاکستان کی حکومت کو امپورٹ شدہ گندم کم از کم 3800 روپے فی من کے حساب سے پڑے گی جو کہ غیر معیاری بھی ہو گی اور اور اگر یہ گندم بینکوں سے لون لے کر امپورٹ کی گئی تو اس پر سود علیحدہ سے ہوگا جو قیمت میں اور بھی اضافہ کر دے گا۔ کسی بھی حکومت کی اس سے بڑھ کر عوام دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ہی کاشتکار سے تو تین ہزار روپے فی من گندم بھی نہ خریدے اور چند ذخیرہ اندوزوں کے فائدے کے لیے باہر سے غیر ملکی گندم امپورٹ کرکے جہاں مقامی کاشت کار کو تباہ کر دے وہیں پر ملکی زر مبادلہ کا بھی ناقابل تلافی نقصان کر دے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سال 2023 کے آخری اور 2024 کے ابتدائی مہینوں میں نگران حکومت کے دور میں ایک ارب ڈالر کی گندم منگوائی گئی تھی۔ موجودہ حکومتی ظالمانہ فیصلے کے بعد آنے والے مہینوں میں ڈھائی سے تین ارب ڈالر کی گندم امپورٹ کرنی پڑے گی۔ اس سال گندم کی پیداوار بھی گزشتہ سال کی نسبت کم ہوئی ہے۔ گزشتہ سال گندم کی پیداوار 31 اعشاریہ پانچ ملین ٹن تھی ۔رواں سال کی متوقع پیداوار 27.5 ملین ٹن کا تخمینہ ہے اس طرح گندم کی پیداوار میں چار ملین ٹن کی کمی واقع ہو چکی ہو گی۔ گندم کے رواں سیزن میں حکومت نے جو کاشتکار کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اس کے بعد آئندہ سال کاشتکار صرف اپنی ضرورت کے مطابق ہی گندم کاشت کرے گا اور دوسری فصلوں پر منتقل ہو جائے گا جسے واپس گندم کی کاشت کی طرف لانے میں کئی سال لگ جائیں گے جبکہ عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پہلے ہی تیزی سے غذائی و پانی کے بحران کا شکار ہو رہا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں