آج کی تاریخ

سول ملٹری ٹرائل کیس: غیر متعلقہ شخص پر فوجی قوانین کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟ آئینی بینچ کا سوال

عدلیہ اور حکومتی اصلاحات

ملک میں عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کو یقینی بنانا ایک پیچیدہ مگر ضروری عمل ہے۔ حالیہ عدالتی اصلاحات کے تناظر میں بعض حلقے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا مقصد عدلیہ کو زیادہ مؤثر اور عوامی توقعات کے مطابق ڈھالنا ہے۔ ایسے فیصلے جو ملک کے قانونی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں، ان کی مخالفت محض قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔
ملکی ترقی اور استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ عدالتی نظام میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ بعض عدالتی فیصلے عوامی امنگوں کے برعکس گئے، جس کی وجہ سے نہ صرف عدلیہ پر سوالات اٹھے بلکہ عوام میں بھی بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ حکومت نے ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالتی تقرریوں کے نظام میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جج صرف اپنی قابلیت، دیانت داری اور قانونی مہارت کی بنیاد پر منتخب کیے جائیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ کو ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو بلا تعطل کام کرے اور عوام کو بروقت انصاف فراہم کرے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ عدالتی مقدمات برسوں تک چلتے رہتے ہیں اور عام شہری انصاف کے انتظار میں زندگی گزار دیتا ہے۔ حکومت کی حالیہ پالیسیوں کا ایک بنیادی مقصد یہی ہے کہ عدالتی نظام میں ایسی بہتری لائی جائے جو عام آدمی کو جلد انصاف مہیا کر سکے۔
کچھ عناصر عدالتی اصلاحات کو منفی انداز میں پیش کر رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے۔ یہ بیانیہ درست نہیں، کیونکہ جو تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں، ان کا مقصد صرف اور صرف عدلیہ کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
یہ تاثر بھی غلط ہے کہ مخصوص ججوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے یا عدلیہ کو کسی ایک نظریے کے تحت ڈھالا جا رہا ہے۔ حقیقت میں، حکومت کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ عدالتی نظام میں وہ لوگ شامل ہوں جو انصاف کی فراہمی میں مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں اور اپنے فیصلوں سے ملک کے استحکام میں کردار ادا کریں۔
ملک کے عوام اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عدالتی نظام کو مؤثر بنانا اور اس میں میرٹ کو فروغ دینا کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے۔ اگر حکومتی کوششوں سے ایک ایسا عدالتی نظام تشکیل پاتا ہے جس میں فیصلے تیز رفتاری سے اور مکمل شفافیت کے ساتھ ہوں، تو اس پر اعتراضات کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض حلقے حکومت پر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عدلیہ کے تمام فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کیے جا رہے ہیں، اور حکومت کا اس عمل میں کوئی غیر ضروری دخل نہیں۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدلیہ میں اصلاحات کیے بغیر ہم ملکی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ یقینی طور پر، ایسا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کو منفی انداز میں دیکھنے کے بجائے ان کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے۔ حکومت کی نیت پر شک کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کون سے اقدامات ہیں جو عدلیہ کی بہتری کے لیے کیے جا رہے ہیں اور ان کے نتائج مستقبل میں کس طرح عوام کے لیے سودمند ثابت ہوں گے۔
اس وقت ملک میں جو عدالتی اصلاحات کی جا رہی ہیں، وہ نہ صرف عدلیہ کو مضبوط بنائیں گی بلکہ اس کی آزادی کو بھی مزید مستحکم کریں گی۔ اصلاحات کا بنیادی مقصد عدالتی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنا، مقدمات کے فیصلے جلدی کروانا اور عدلیہ کو سیاست سے پاک رکھنا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر جج حضرات حکومتی پالیسیوں کے خلاف فیصلے دیتے ہیں، تو انہیں کسی قسم کی سزا یا دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، بلکہ انہیں مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک بے بنیاد الزام ہے۔
ملک کی ترقی اور عدالتی نظام کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ میں ہونے والی مثبت اصلاحات کو تسلیم کیا جائے اور انہیں ایک بہتر پاکستان کے قیام کے لیے ایک قدم قرار دیا جائے۔ حکومت کی یہ کوششیں محض وقتی نہیں، بلکہ ان کے طویل المدتی فوائد عوام کو ملیں گے اور ایک ایسا نظام قائم ہو گا جہاں انصاف سستا، تیز اور غیر جانبدار ہوگا۔
ملکی مفاد میں یہی بہتر ہوگا کہ عدلیہ میں اصلاحات کے عمل کو متنازع بنانے کے بجائے اس کا ساتھ دیا جائے۔ عوام کی بھلائی اور ملک کی ترقی اسی میں ہے کہ عدالتی نظام کو جدید اور شفاف بنایا جائے تاکہ ہر شہری کو بروقت اور غیر جانبدارانہ انصاف میسر آ سکے۔
حکومت کے ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ عدالتی اصلاحات کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت نہیں بلکہ عدالتی نظام میں بہتری کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ان اصلاحات کا مقصد عدلیہ کو کسی دباؤ میں لانا نہیں بلکہ اسے زیادہ مستحکم، خودمختار اور مؤثر بنانا ہے تاکہ عوام کو فوری اور معیاری انصاف مل سکے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں بعض عدالتی فیصلے عوامی توقعات سے ہم آہنگ نہیں تھے، جس کی وجہ سے عوام میں عدلیہ کے وقار اور انصاف کے عمل پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ حکومت کے اقدامات کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ عدلیہ کے وقار کو بحال کیا جائے اور اسے مزید فعال بنایا جائے تاکہ عوام کا اعتماد عدالتی نظام پر بحال ہو سکے۔
یہاں یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ حکومت عدلیہ کی خودمختاری پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ تاہم، ایک مضبوط عدالتی نظام کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کے اندر بھی ایک ایسا طریقہ کار موجود ہو جو ججوں کی کارکردگی کو جانچ سکے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ اگر ججوں کے تقرر اور ترقی میں مکمل شفافیت ہو، تو اس سے نہ صرف عدلیہ مزید مضبوط ہوگی بلکہ عام عوام کا بھی اس پر اعتماد بڑھے گا۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ حکومت عدلیہ میں من پسند افراد کو تعینات کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ میں تقرریاں اور تبادلے ایک باقاعدہ قانونی اور آئینی عمل کے تحت ہوتے ہیں، اور اس میں کسی قسم کی بدنیتی شامل نہیں۔ جو جج میرٹ پر پورا اترتے ہیں، وہی ترقی پاتے ہیں اور یہی اصول ایک مضبوط عدالتی نظام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
ملکی ترقی کے لیے حکومت کی جانب سے عدلیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، وہ نہ صرف عدالتی نظام میں بہتری لائیں گی بلکہ انصاف کے عمل کو بھی تیز اور شفاف بنائیں گی۔ اگر عدلیہ میں اصلاحات نہ کی جائیں اور پرانے فرسودہ طریقوں پر انحصار کیا جائے، تو اس سے عوام کا نقصان ہوگا۔ ایک جدید ریاست کے لیے ضروری ہے کہ اس کا عدالتی نظام مؤثر اور شفاف ہو، تاکہ ہر شہری کو بروقت اور غیر جانبدارانہ انصاف ملے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی ہو تاکہ قومی ترقی کا عمل متاثر نہ ہو۔ اگر عدالتیں حکومتی اقدامات کے خلاف غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کریں یا حکومتی فیصلوں میں بار بار مداخلت کریں، تو اس سے نہ صرف انتظامی معاملات متاثر ہوتے ہیں بلکہ عوام کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ عدلیہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر آزادانہ فیصلے کرے، لیکن اس آزادی کے ساتھ ساتھ ایک مؤثر احتسابی عمل بھی موجود ہو تاکہ انصاف کے تقاضے مکمل طور پر پورے کیے جا سکیں۔
ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عدالتی اور حکومتی ادارے مل کر کام کریں اور ایک ایسا نظام تشکیل دیں جہاں انصاف سب کے لیے یکساں ہو۔ اگر حکومت عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، تو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، کیونکہ ایک مضبوط عدلیہ ہی ایک مستحکم ملک کی ضمانت ہوتی ہے۔
حکومتی اصلاحات کا اصل مقصد عدالتی نظام میں موجود سست روی، غیر ضروری تاخیر اور غیر شفافیت کو ختم کرنا ہے۔ ایک ایسا عدالتی نظام جہاں مقدمات کے فیصلے برسوں بعد ہوں، انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ حکومت اس رجحان کو ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ عام آدمی کو جلد اور سستا انصاف مہیا کیا جا سکے۔
عوام کو بھی چاہیے کہ وہ عدلیہ میں کی جانے والی اصلاحات کو مثبت نظر سے دیکھیں اور ان کا ساتھ دیں۔ اگر ہم ایک ایسا عدالتی نظام چاہتے ہیں جہاں انصاف صرف چند مخصوص طبقوں تک محدود نہ ہو، بلکہ ہر شہری کو اس کا حق ملے، تو ہمیں ان اصلاحات کی حمایت کرنی چاہیے۔
حکومت عدلیہ کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ ایک ایسی عدلیہ جو آزاد ہو، جو انصاف پر مبنی فیصلے کرے، جو عوام کو جلد انصاف فراہم کرے، وہی ایک ترقی یافتہ ملک کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ لہٰذا، عدالتی اصلاحات کو محض ایک سیاسی بحث نہ بنایا جائے بلکہ اس کے عملی فوائد پر غور کیا جائے اور ایک مضبوط عدالتی نظام کے قیام میں حکومت کا ساتھ دیا جائے۔

معیشتی اعداد و شمار میں شفافیت کے مسائل

پاکستان میں معیشتی اعداد و شمار کی درستگی اور شفافیت پر ہمیشہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ آزاد معاشی ماہرین اور حکومت کے فراہم کردہ ڈیٹا کے درمیان نمایاں فرق نے انتظامیہ کو بروقت اور مؤثر پالیسی سازی میں مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
ملکی پیداوار کا مجموعی حساب، جسے مجموعی قومی پیداوار کہا جاتا ہے، کے تعین میں کئی مسائل سامنے آئے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف شعبوں کے اعداد و شمار میں مطابقت نہیں پائی جاتی۔ مثال کے طور پر، اگر سیمنٹ کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے تو تعمیراتی شعبے میں بھی کمی ہونی چاہیے، لیکن سرکاری اعداد و شمار میں اکثر یہ ربط نظر نہیں آتا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح کو جان بوجھ کر زیادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح، افراطِ زر (مہنگائی) کے تعین میں بھی شفافیت کے فقدان کا مسئلہ موجود ہے۔ حکومت بعض اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی کو مہنگائی کے اعداد و شمار میں شامل کر کے مجموعی مہنگائی کی شرح کو کم دکھاتی ہے، حالانکہ حقیقت میں ان سبسڈیز سے مستحق طبقہ بھی پوری طرح مستفید نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ، زرِ مبادلہ کی شرح کو کنٹرول کر کے درآمد شدہ مہنگائی (بالخصوص پیٹرول اور خوردنی تیل) کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے حقیقی افراطِ زر کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔
بیروزگاری کی شرح کے حوالے سے بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح فعال لیبر مارکیٹ ڈیٹا بیس موجود نہیں ہے، جس کے ذریعے درست بیروزگاری کی سطح کو ماپا جا سکے۔ نتیجتاً، حکومت کی فراہم کردہ بیروزگاری کی شرح حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتی اور اس میں کمی بیشی کا امکان موجود رہتا ہے۔ کچھ ناقدین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہر شماریات اور ڈیٹا اکٹھا کرنے والے تربیت یافتہ افراد کی کمی کے باعث بھی اعداد و شمار میں غلطیاں ہوتی ہیں۔
جانوروں کی کل تعداد جیسے دیگر شعبوں میں بھی ڈیٹا کو اندازوں اور قیاس پر مبنی طریقہ کار سے اخذ کیا جاتا ہے، جو حقیقی تصویر کو مسخ کر سکتا ہے۔ یہی مسائل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایک رپورٹ میں بھی اٹھائے گئے، جس میں کہا گیا کہ پاکستان کے مجموعی قومی پیداوار کے تقریباً ایک تہائی حصے کے اعداد و شمار کی بنیادی معلومات میں کئی خامیاں موجود ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں کئی اہم مسائل ہیں، جن میں شامل ہیں:
1.مجموعی قومی پیداوار کے ایک تہائی حصے کو اندازوں اور پرانے اعداد و شمار کی بنیاد پر اخذ کرنا۔
2.معاشی اخراجات اور آمدنی کے ذرائع کی تفصیلات کا محدود ہونا۔
3.محصولات اور سرکاری اخراجات کے بارے میں مکمل معلومات کی عدم دستیابی۔
4.مالیاتی خسارے کے حساب کتاب میں تضادات۔
مہنگائی کے اعداد و شمار کو زیادہ درست اور جامع سمجھا جاتا ہے، لیکن صارف قیمت اشاریہ کے پیمانے پر 2015-16 کے بعد نظرثانی نہیں کی گئی، جس کے باعث اس میں بھی بہتری کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، بیرونی شعبے کے بارے میں معلومات عمومی طور پر درست ہوتی ہیں، لیکن غیر رسمی ترسیلاتِ زر کے تخمینے دستیاب نہیں ہوتے، جو کہ معیشت کا ایک اہم پہلو ہے۔
حکومت بھی اس مسئلے سے آگاہ ہے اور اس نے اعتراف کیا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کے تعین میں استعمال ہونے والے پیداواری اشاریے کے معیار میں بہتری کی ضرورت ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تکنیکی معاونت سے ایک نیا پیداواری قیمت اشاریہ تیار کر رہا ہے، جس کے لیے جولائی 2024 سے زرعی اور صنعتی سرگرمیوں کا نیا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، چار بڑے سروے، جن میں زرعی مردم شماری، مزدوروں کے حالات کا جائزہ اور گھریلو معیشتی سروے شامل ہیں، کا آغاز بھی متوقع ہے، جس سے نئے اور زیادہ مستند اعداد و شمار حاصل کیے جا سکیں گے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تشخیص کے مطابق، حکومت میں شماریاتی مہارتوں کی کمی ہے، جبکہ آزاد ماہرینِ معیشت کا دعویٰ ہے کہ اصل مسئلہ جان بوجھ کر اعداد و شمار میں رد و بدل کرنا ہے۔ ان کے مطابق، معیشتی اعداد و شمار کو ایسے دکھانے کی ہدایت دی جاتی ہے کہ حکومت کی کارکردگی مثبت نظر آئے، جبکہ اصل صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہوتی ہے۔
بعض ماہرین اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بعض اہم معاشی معلومات جیسے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر اور حقیقی مؤثر زرِ مبادلہ کی شرح کے اعداد و شمار کے اجراء میں تاخیر کرتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف شفافیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ معیشت کے بارے میں فیصلہ سازی کے عمل کو بھی پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت ان مسائل کو سنجیدگی سے لے اور معیشتی اعداد و شمار کو مکمل شفافیت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرے۔ اگر معیشتی پالیسیاں صحیح بنیادوں پر بنائی جائیں اور ان میں حقیقت پر مبنی اعداد و شمار کا استعمال ہو، تو بروقت اصلاحی اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور بحران کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس جیسے اداروں کو آزاد اور خودمختار بنائے، تاکہ وہ بلا کسی دباؤ کے درست معلومات فراہم کر سکیں۔ مزید برآں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر معاشی اداروں کو بھی شفافیت کو ترجیح دینی چاہیے، تاکہ عوام، سرمایہ کار اور پالیسی ساز درست فیصلے کر سکیں۔
شفاف اور مستند معاشی اعداد و شمار کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہے، تو اسے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہوں گے۔ بصورتِ دیگر، معیشتی بحران کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور عوام کا اعتماد مزید مجروح ہو سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں میں شفافیت لانے کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے یا پھر روایتی طریقے ہی جاری رہیں گے؟ وقت ہی بتائے گا کہ آیا معیشتی بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ محض اعداد و شمار کا غلط استعمال ہے یا اس سے کہیں زیادہ گہرے مسائل موجود ہیں۔

معیشتی استحکام کی امید

وزیرِاعظم شہباز شریف نے منگل کے روز دبئی میں ہونے والے ورلڈ گورنمنٹ سمٹ 2025 کے موقع پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جورجیوا سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو پاکستان کی معیشتی پالیسیوں اور آئی ایم ایف پروگرام کے تسلسل کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیرِاعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، ملاقات میں پاکستان کے جاری آئی ایم ایف پروگرام اور حکومت کی اصلاحاتی پالیسیوں پر بات چیت ہوئی، جن کے نتیجے میں ملک کو معاشی استحکام حاصل ہوا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان معاشی اصلاحات پر کاربند ہے اور مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، جو مستقبل میں پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہوگا۔
کرسٹالینا جورجیوا نے پاکستان کی معاشی بحالی کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جو اصلاحات کی ہیں، وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی معیشت اب استحکام کی جانب گامزن ہے اور مہنگائی کی شرح میں کمی کے ساتھ ساتھ ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں جاری اصلاحاتی عمل کو بھی تسلیم کیا اور یقین دلایا کہ آئی ایم ایف پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔ انہوں نے مالیاتی نظم و ضبط، ساختی اصلاحات اور بہتر طرزِ حکمرانی کو معیشت کی پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس موقع پر آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت ہونے والی پیش رفت کو اجاگر کیا اور کہا کہ اس نے معیشت کو استحکام بخشنے اور بحالی کے عمل کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حکومت ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور نجی شعبے کی ترقی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
انہوں نے آئی ایم ایف چیف کو یقین دلایا کہ پاکستان معیشتی نظم و ضبط، کارکردگی اور پائیداری کو اپنی اقتصادی حکمت عملی کے بنیادی ستونوں کے طور پر اپنائے گا، تاکہ ترقی کے عمل کو تمام طبقات تک یکساں طور پر پھیلایا جا سکے۔
ملاقات کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی مسلسل حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب معاشی استحکام سے مسلسل ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن ہونے کے لیے پُرعزم ہے۔
آئی ایم ایف چیف نے بھی اپنے بیان میں حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے کی پالیسی کو سراہا اور کہا کہ پاکستان کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کیے گئے فیصلے قابلِ تحسین ہیں۔
اسی دوران، منگل کے روز آئی ایم ایف کے ایک وفد نے، جوئل ٹرکیووٹز کی قیادت میں، پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے بھی ملاقات کی۔ سپریم کورٹ میں ہونے والی اس ملاقات میں عدالتی نظام میں جاری اصلاحات، گورننس اور احتساب کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفد نے پاکستان میں قانونی اور ادارہ جاتی استحکام کو برقرار رکھنے میں عدلیہ کے کردار کو سراہا اور اصلاحاتی کوششوں کی حمایت کی۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چند روز قبل وزارتِ خزانہ نے اعلان کیا تھا کہ آئی ایم ایف کا ایک تین رکنی وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ یہ وفد ملک میں گورننس اور کرپشن سے متعلق تشخیصی جائزہ مکمل کرے گا، جو کہ پاکستان کے 2024 کے آئی ایم ایف توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کا حصہ ہے۔
یہ ملاقات اور دیگر سرگرمیاں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور معیشتی پالیسیوں میں شفافیت اور کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ ہے۔ معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کی راہ میں درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کو ان اصلاحات کو مزید موثر اور دیرپا بنانے کی ضرورت ہوگی، تاکہ عوام کو اس کے حقیقی ثمرات حاصل ہو سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیئر کریں

:مزید خبریں