ملتان (عوامی رپورٹر) ڈمی اخبارات میں طلبی کے اشتہار چھپوا کر سینکڑوں مقدمات کا بیڑا غرق کرنے والے ملتان کی مختلف عدالتوں کے ریڈرز اور منشی گروپ کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان کی طرف سے مصدقہ رپورٹوں بعد کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تمام عدالتوں سے تحریری طور پر معلومات بھی لی جا رہی ہیں۔ قوم کو بتایا گیا ہے کہ بعض وکلاء کے منشیوں اور ریڈرز پر مشتمل یہ گروہ کی جھجک اس حد تک اتر چکی ہے کہ سول کورٹس کی طرف سے اخباری اشتہار کے لیے اخبار کا نام لکھے جانے کے باوجود اپنی مرضی سے وہی اشتہارات ڈمی اخبارات چھپوا کر ڈمی اخبار کو 100 سے 150 روپئے فی اشتہار دے کر اشتہار کی مد میں ہزاروں روپیہ اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ اس گروپ نے جو فارمولا طے کر رکھا ہے اس کے مطابق اگر اشتہار میں ایک سے زائد نام ہوں تو فی نام 50 روپے لیے جاتے ہیں اور ڈمی اخبارات کو وہی اشتہار 10 روپے فی نام دے کر 40 روپے فی نام اپنی جیب میں ڈال لیے جاتے ہیں اور اگر کسی اشتہار میں 100 نام ہوں تو اشتہار کی قیمت کے علاوہ پانچ ہزار روپیہ صرف ناموں کی مد میں لیا جاتا ہے اور 100 سے 200 روپے کے اشتہار کے ساتھ چار سے پانچ سو روپیہ 10 روپے فی نام کے حساب سے ڈمی اخبارات کو ادا کرکے باقی رقم مبینہ طور پر منشیوں اور ریڈروں میں تقسیم ہو جاتی ہے اس طرح یہ کھیل سالہا سال سے جاری ہے جو ہر سال سینکڑوں مقدمات پر اثر انداز ہو کر ان کا بیڑا غرق کرا دیتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ معزز جج حضرات قومی اخبارات کے نام اشتہار جاری کرتے ہیں مگر یہ گروپ کسی نہ کسی ایک پارٹی کے ساتھ ڈیل کرنے کے بعد وہی اشتہار کسی ایسے اخبار میں چھپوا دیتے ہیں جس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ ان کا وجود صرف کاغذات میں تو ہوتا ہے مگر نہ اس کا کوئی دفتر موجود ہوتا ہے نہ عملہ بلکہ یہ ون مین شو ہوتا ہے اور یہ اکثر اوقات بیس ہزار روپے والا اشتہار بھی پانچ چھ سو روپے میں بھی لگا دیتے ہیں۔ پاکستان بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان کی سب سے بڑی تنظیم اے پی این اے (رجسٹرڈ) کہ سیکرٹری جنرل شاہد صدیق چوہدری نے اس صورتحال کے حوالے سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان سے اپیل کی ہے کہ جنوبی پنجاب کے مرکز ملتان کی اخبار مارکیٹ اور اخبار فروش یونین سے تحریری طور پر رپورٹ طلب کر لیں کہ کون کون سے اخبارات روزانہ کی بنیاد پر فروخت کے لیے مارکیٹ میں بھجوائے جاتے ہیں تو سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا۔
