آج کی تاریخ

سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی

تازہ ترین

ضلع کچہری لاہور سکینڈل: عدالتی سسٹم سوالیہ نشان، “قوم” نے انصاف کی چنگاری بجھنے نہ دی

اسلام آباد ( ثاقب خان کھٹڑ)یہ محض ایک خبر نہیں، یہ عدلیہ کےناکام سسٹم پرایک سوالیہ نشان ہے۔ — مگر اس دھبے پر روشنی ڈالنے والا ایک ادارہ ہے، ایک قلم ہے، ایک آواز ہے جس نے’’خاموش فائلوں‘‘کے اس شور میں بھی سچ کی صدا بلند کی — ۔ضلع کچہری لاہور کی دیواروں نے صدیوں کی عدالتی کارروائیاں دیکھی ہیں مگر شاید پہلی بار ان دیواروں نے اپنی ہی بنیادوں کو جلتے دیکھا۔ سول کورٹس کے ریکارڈ کی وہ آگ جو فجر کے بعد اٹھی، محض کاغذوں کو نہیں، ضمیروں کو بھی جلا گئی۔ جب سب نے اسے ایک معمولی حادثہ سمجھ کر بھلا دیا، تب روزنامہ قوم نے وہ سوال اٹھایا جس سے ہر طاقتور لرز گیا’’کیا یہ آگ سچ کو مٹانے کے لیے لگائی گئی تھی؟‘‘ روزنامہ قوم نے نہ صرف سوال اٹھایا بلکہ وہ دروازے بھی کھول دیے جن پر’’محفوظ ریکارڈ‘‘لکھا تھا مگر اندر راکھ کے ڈھیر اور بدعنوانی کی بو تھی۔ قوم کی تحقیقی ٹیم نے جس جرات اور احتیاط کے ساتھ اس فراڈ کی پرتیں کھولیں وہ کسی جاسوسی ناول کی نہیں بلکہ ایک زندہ سماجی حقیقت کی روداد ہے۔یہ کہانی 2020 سے شروع ہوتی ہے۔ چند عدالتی اہلکار، کچھ خزانے کے افسراور چند بااثر وکلا، — انہوں نے ایک ایسا نظام بنا لیا تھا جس میں انصاف کو کاروبار اور قانون کو کھیل بنا دیا گیا۔ وہ بوڑھے مرد اور خواتین جنہوں نے اپنی زندگی کی کمائی عدالت کے ذریعے محفوظ سمجھی، انہی کے نام پر رقمیں جعلی مختارناموں سے نکلوا لی گئیں۔ روزنامہ قوم نے جب یہ فائلیں کھولیں تو ہر صفحے پر بدنیتی کے دستخط تھے۔کوئی فرضی شہری، کوئی جعلی مختار عام، کوئی صلح نامہ اور کوئی جج ،جس نے بنا پوچھے دستخط کر دیے۔پھر وہ دن آیا — جب روزنامہ قوم نے یہ انکشاف چھاپا کہ ڈیڑھ ارب روپے کا ریکارڈ نہ صرف خوردبرد کیا گیا بلکہ اب اسے’’حادثاتی آگ‘‘ میں جلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ خبر محض رپورٹ نہیں تھی، یہ ایک مقدمہ تھی — عوام بمقابلہ نظامِ انصاف۔ ’’قوم‘‘ کا اسلوب وہی دبنگ اور دوٹوک تھا جو علامہ راشد الخیری کے قلم میں جھلکتا تھا —ان کی تحریر میں نہ مصلحت تھی نہ خوف۔روزنامہ قوم کی رپورٹ کے مطابق فراڈ کا طریقہ واردات حیران کن حد تک پیچیدہ اور خطرناک تھا۔ہر جعلی مقدمہ دو عدالتوں میں بیک وقت چلتا۔ایک حقیقی، دوسری فرضی۔اصلی مدعا علیہ عدالت میں پیش ہوتا مگر جعلی مختار نامہ دوسری عدالت میں جا کر ’’صلح‘‘ کی اطلاع دیتا۔پھر خزانے سے وہی رقم نکلوا لی جاتی جو عوام کے اعتماد کے طور پر جمع تھی۔عدالت کے اہلکار دستخط کرتے، خزانہ چیک جاری کرتااور جرم قانون کے پردے میں محفوظ ہو جاتا۔ روزنامہ قوم نے اس نیٹ ورک کے خفیہ ریکارڈ، بینک ٹرانزیکشنز اور عدالتی تاریخوں کو جوڑ کر ایک ایسی کہانی لکھی جس میں ہر کردار زندہ نظر آتا ہے۔اس واقعے کے تکنیکی پہلو بھی کم ہولناک نہیں۔عدالتوں کا ریکارڈ مکمل طور پر ڈیجیٹل نہیںچنانچہ فائلوں میں ردوبدل آسان ہے۔عدالتی دستخطوں کی تصدیق کا کوئی مرکزی نظام نہیں، اس لیے ایک جعلی دستخط مہینوں تک قانونی رہتا ہے۔محکمہ خزانہ اور عدالتی نظام کے درمیان کوئی رئیل ٹائم ویریفکیشن نہیں جس سے رقم کا اجرا محض چند منٹوں کا کھیل ہے۔یہی وہ کمزوریاں ہیں جنہیں فراڈیوں نے ہتھیار بنایا اور جنہیں بے نقاب کرنا کسی عام صحافی کے بس کی بات نہیں تھی۔ روزنامہ قوم نے نہ صرف یہ کمزوریاں دکھائیں بلکہ اصلاحات کی تجویز بھی دی۔ روزنامہ قوم کو اس جرات پر سلام پیش کرنا ہر اس شخص کا فرض ہے جو ابھی بھی مانتا ہے کہ قلم کا کام صرف لکھنا نہیں، لڑنا بھی ہے۔انہوں نے ان اداروں کے خلاف لکھا جن کے سامنے عام صحافی بولنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ روزنامہ قوم نے بتایا کہ صحافت اگر غیر جانبدار، محنتی اور بے خوف ہو تو وہ عدالت سے بڑی عدالت بن سکتی ہے۔یہ وہ تحریر تھی جو عدالت کی راکھ سے نکلی مگر قوم کے دلوں میں امید کی چنگاری بن گئی۔

ستائیس سال بعد پرانا کھیل زمین ریکارڈ خاکستر، فراڈیئے “وارث” بننے کیلئے تیار، چوہے بھی مجرم

لاہور (بیورو رپورٹ) ضلع کچہری لاہور میں لگنے والی آگ نے ہزاروں شہریوں کو جہاں ان کی کروڑوں کی جائیدادوں سے محروم کر دیا ہے وہاں یہ آگ فراڈیوں کے لئے’’رزق‘‘کے لامتناہی سلسلے کا سبب بن گئی ہے، بتایا گیا ہے کہ ایل ڈی اے پلازہ میں بنی ہوئی ان عدالتوں میں آگ فرسٹ فلور پر بنے ڈے کیئر سنٹرسے شروع ہوئی اور اس نے تین فلور میں موجود تمام عدالتوں کا تمام تر ریکارڈ اس وجہ سے جلا کر رکھ دیا کہ وہاں تمام تر عدالتی کمروں کی پارٹیشنوم بورڈ اور لکڑی کی تھی جبکہ فرنیچر بھی لکڑی کا تھا اور بہت سی جگہوں پر پلاسٹک شیڈ لگے ہوئے تھے جو بار بار آگ پکڑ رہے تھے۔ اسی کیمیکل کی وجہ سے آگ بار بار بھڑک رہی تھی اور بجھانے میں شدید دشواری آ رہی تھی۔ 27 سال قبل اسی طرح لاہور کی ضلع کچہری میں تمام تر ا راضی ریکارڈکوآگ لگی تھی جو کئی دن سلگتی رہی تھی اور حیران کن طور پر اس آگ میں بند فائلیں بھی کھول کھول کر جلائی گئی تھیں اور پھر اس کے بعد لاہور کے بعض ایسے سیاسی گھرانے جن کے نام ایک مرلہ زمین بھی نہ تھی سو سو مربع زمین کے مالک بن گئے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس بلڈنگ سمیت ساری ضلع کچہری اور ڈی سی اوورز میں چوہوں کی بھرمار ہے اور چوہے کی مادہ جب حاملہ ہوتی ہے تو وہ سخت چیزوں کو کاٹتی ہے اور ان دنوں میں پلاسٹک کی سخت تاریں کاٹنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے اور انہی تاروں کے کٹتے کٹتے شارٹ کٹ سرکٹ کی وجہ سے جہاں چوہیا خود جل جاتی ہے وہیں پر تاروں کے گچھوں کو بھی جلا دیتی ہے اور انہی تاروں سے لگنے والی آگ بہت سی عمارتوں میں پھیل جاتی ہے۔ حفیظ سینٹر میں لگنے والی آگ بھی اسی طرح چوہوں کے تاروں کو کاٹنے کی وجہ سے لگی تھی اور یہ بات بھی خاص طور پر نوٹ کی گئی ہے کہ جتنے بھی پلازوں، سرکاری عمارتوں یا کمرشل سنٹر ہو ،میں اس قسم کی آگ لگتی ہے وہ عموما ًرات کے آخری پہر یا صبح کے اوقات میں لگتی ہے حالانکہ اس وقت نہ تو اے سی چل رہے ہوتے ہیں نہ ہی دفاتر، دکانوں یا دیگر کسی قسم کی کمرشل ایکٹیوٹی کے حوالے سے اے سی چل رہے ہوتے ہیں۔ اس اس لحاظ سے تاروں پر بجلی کا لوڈ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے تو پھر رات یا سحری کے اوقات میں یہ کہنا بھی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ برقی تاریں گرم ہونے کی وجہ سے آگ لگی ہو۔ قیام پاکستان سے قبل تک متحدہ ہندوستان میں انگریزوں نے باقاعدہ ایس او پی بنایا ہوا تھا اور ہر مہینے سرکاری عمارات میں چوہے مار مہم شروع کی جاتی تھی اور جہاں جہاں بھی دفاتر میں سرکاری ریکارڈ پڑا ہوتا تھا خصوصی طور پر چوہے مار گولیاں بھی پھینکی جاتی تھیں اور ان تمام سوراخوں کو بند رکھا جاتا تھا جہاں سے چوہے کسی ایسی عمارت میں کہ جہاں ریکارڈ پڑا ہو داخل ہی نہ ہو سکیں مگر قیام پاکستان کے بعد جہاں ہر شعبے میں بربادی آئی وہاں چوہے تلف کرنے کے حوالے سے یہ ایس او پیز بھی اپنی موت آپ مر گئے۔ اصولی طور پر جو ریکارڈ ضائع ہوا یا جن مقدمات کا نقصان ہوا اس کی ذمہ داری براہ راست حکومت اور عدالتی نظام پر آتی ہے مگر اس کا خمیازہ سو فیصد وہ لوگ بھگتیں گے جن کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں اور کوئی بھی اعلیٰ ترین عدالتی عہدے داران یا حکومتی عہدے داران اس کی سرے سے کوئی ذمہ دار ہی نہیں لیں گے۔ 27 سال قبل جو ضلع کچہری میں ریکارڈ جلا تھا اس کا نقصان بھی عام لوگوں کو اٹھانا پڑا تھا جبکہ خاص لوگ اور فراڈیے اربوں کی کمرشل سکنی و زرعی جائیدادوں کے مالک بن گئے تھے۔ نہ کوئی انکوائری ہوئی نہ کسی کو سزا ہوئی بلکہ حیران کن طور پر جس ڈپٹی کمشنر کے کمرے کے ساتھ ریکارڈ روم کو آگ لگی تھی مذکورہ ڈپٹی کمشنر ناصر کھوسہ کو ترقی دے کر کمشنر لاہور لگا دیا گیا تھا اور پھر ان پر نوازشات کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے چیف سیکرٹری تک پہنچ گیا۔ اب وہ پنجاب کے چیف سیکرٹری لگا دیئے گئےہیں۔ نہ کوئی انکوائری ہوئی نہ ان سے کوئی پوچھ گچھ ہوئی بلکہ ان کی مکمل سہولت کاری ہوئی۔ واقفان حال کے مطابق لاہور کی عدالتوں میں لگنے والی اس آگ نے لاکھوں خاندانوں کے مقدر کو خاکستر کرکے رکھ دیا ہے۔ گزشتہ روز ہزاروں سائلین جن کے مقدمات عدلیہ کے اس بلاک میں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھے وہ اپنے مقدمہ کی معلومات لینے کے لیے دن بھر وہاں دھکے کھاتے رہے مگر انہیں کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ اس عدالت کا ریکارڈ جلا ہے اور کس حد تک جلا ہے کیونکہ ابھی تک کوئی بات سامنے نہیں آسکی اور باقاعدہ طور پر جانچ پڑتال بھی شروع نہیں کی جا سکی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں