
ملتان(سٹاف رپورٹر) موٹروے سے اندھڑ گینگ کے ہاتھوں اغوا کئے جانے والے 11 مغویان کی بازیابی ڈیل کے تحت ہوئی ہے۔ تمام تر اندرونی کہانی سامنے آ گئی ۔ صوبہ بھر میں شریف شہریوں پر ظلم ڈھانے، ان کے گھروںمیں داخل ہو کر تشدد ، توڑ پھوڑ ، خواتین کو رسوا کرنے، معصوم اور بے گناہ شہریوں پر کئی کئی کلو منشیات ڈالنے کےحوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھنے والی پنجاب پولیس ایک مرتبہ پھر کچے کے ڈاکوؤں کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور رحیم یار خان پولیس نے اندھڑ گینگ کے موجودہ سرغنہ کو مبینہ طور پر 50 لاکھ روپیہ تاوان، 47 ایکڑ قبضہ شدہ زمین کی واپسی، تنویر اندھڑ کی اراضی پر قائم پولیس چوکی کا خاتمہ، مزید پولیس ایکشن نہ کرنے کی یقین دہانی، تنویر اندھڑ کے بھائی منیر اندھڑ جو کہ ڈکیتی اور قتل میں جیل میں ہے، کے ساتھی عامر عباس کی تنویر اندھڑ کو حوالگی، اندھڑ فیملی ضلع رحیم یار خان چھوڑ کر سندھ چلی جائے اور چار سال قبل رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے نواحی علاقے میں پٹرول پمپ پر قتل ہونے والے 11 مقتولین کے مقدمے میں مدعیوں سے صلح کروانے اور مقدمہ ختم کرانے کے لیے پولیس کو اپنا کردار ادا کرنے کی شرط پر اندھڑ گینگ کے سرغنہ تنویر اندھڑ نے ان9 افراد کو رہا کر دیا جنہیں موٹروے سے اغوا کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ان میں سے دو مغویان کا تعلق سبزانی قبیلے سے تھا جنہیں سبزانی قبیلے والوں نے اپنے اثرو رسوخ کے تحت رہا کروا لیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر انہوں نے بھی 20 لاکھ روپیہ دیا۔ سبزانی قوم کے بندوں کو رہا کرتے ہوئے تنویر اندھڑ نے یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک باقی مغویان کی ڈیل نہیں ہو جاتی وہ اس رہائی کو صیغہ راز میں رکھیں گے۔ تنویر اندھڑنے 9 افراد کو ظاہر کرکے یہ دعویٰ سوشل میڈیا پر ویڈیو بیان جاری کرکے کیا تھا کہ ان میں سے دو کو ہم نے قتل کر دیا ہے اور باقیوں کو بھی کر دیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈی پی او رحیم یار خان عرفان سموں کے کنٹرول سے جب معاملہ باہر ہو گیا تو ایک ایڈیشنل آئی جی خصوصی طور پر لاہور سے رحیم یار خان گئے جہاں انہوں نے مذاکرات کی نگرانی کی۔ بتایا گیا ہے کہ اندھڑ گینگ اور پولیس کے درمیان پیغام رسانی کے فرائض مہر شیخ نامی ایک پولیس ٹاؤٹ ادا کرتا رہا جو کہ سی سی ڈی سب انسپکٹر مسلم ضیا کا برادر نسبتی ہے۔ مسلم ضیا کی والدہ اور تنویر اندھڑ کی والدہ آپس میں سگی بہنیں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ تنویر اندھڑ کے والد قادر بخش عرف قادی اندھڑ نے دو شادیاں کر رکھی تھیں جن میں سے ایک شیخ قوم سے تعلق رکھتی تھیں اور ان دونوں بیویوں سے قادر بخش قادی اندھڑ کے آٹھ بیٹے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اندھڑ گینگ نے ان نو مغویان کی رہائی کے عوض پانچ کروڑ تاوان طلب کیا تھا پھر مذاکرات میں بات ڈیڑھ کروڑ پر آگئی اور آخر میں 50 لاکھ پر سودا ہوا کیونکہ اس میں مولانا فضل الرحمان کے علاقے کے دو مغویان بھی شامل تھے اس لیے یہ معاملہ انتہائی اعلیٰ سطح تک پہنچ چکا تھا۔ باخبر ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ کشمور ریسٹ ہاؤس میں ڈی پی او رحیم یار خان عرفان سموں اور تنویر اندھڑ کے درمیان براہ راست مذاکرات بھی مسلم ضیا کے برادر نسبتی مہر شیخ نے کروائے۔ ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس ڈیل کی باقاعدہ تحریر لکھی گئی ہے اور اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ تنویر اندھڑکے جیل میں قید بھائی منیر اندھڑ کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اس معاہدے کا گواہ ایک مقامی سیاستدان بھی ہے۔








