اسلام آباد: عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر پٹرول کی قیمتوں میں بچت نہ ہو تو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بن سکتیں؟ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے دو بڑے مسائل پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا — ایک کسانوں کا جاری بحران اور دوسرا عالمی سطح پر کم ہونے والی پیٹرولیم قیمتوں کا فائدہ عوام تک نہ پہنچانا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کا کسان بدترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور سراسر احتجاج کر رہا ہے لیکن حکومت بے حس بنی ہوئی ہے۔ کسان ملک کے لیے گندم اگاتا ہے، اگر وہی پریشان حال ہوگا تو پوری معیشت متاثر ہوگی۔
شاہد خاقان نے نشاندہی کی کہ گزشتہ برس بھی کسان مسائل کا شکار رہے، اور اس سال حکومت نے 4000 روپے فی من گندم خریدنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے کسانوں کو اپنی فصل سستے داموں فروخت کرنی پڑی۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مہنگائی اور یوریا، بجلی کے بڑھتے داموں کے باعث گندم کی لاگت 3000 روپے فی من سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ کسان کو 2100 روپے میں فروخت پر مجبور کیا جا رہا ہے، جو سراسر نقصان دہ ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہی حالات رہے تو ملک کو اگلے سال گندم درآمد کرنی پڑے گی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر مقامی منڈی کسان کے لیے سازگار نہیں تو کم از کم انہیں گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔
پنجاب حکومت کی اسکیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چند افراد کو فائدہ ہوا ہے، لیکن اکثریتی کسان آج بھی محروم ہے۔ گندم کی ایسی قیمت مقرر کی جائے جو کسان اور عوام دونوں کے لیے موزوں ہو۔
پیٹرولیم مصنوعات پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھتی ہیں تو حکومت فوراً بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہے، لیکن جب کمی آتی ہے تو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ یہ عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر پٹرول سے بچت نہ ہو تو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بن سکتیں؟ حکومت کے ایسے فیصلے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملک کی ترقی مثبت پالیسیوں سے ہوتی ہے، مگر موجودہ حکومت نے ریلیف کا ایک اور موقع ضائع کر دیا ہے۔
