اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران کمپنیوں کے وکلاء نے اپنے دلائل پیش کیے اور سینیٹ کی تجاویز اور قومی اسمبلی کے اختیارات پر بھی بحث ہوئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق مختلف درخواستوں کی سماعت کی، جس میں مختلف ٹیکس دہندہ کمپنیوں کے وکیل عابد شعبان نے دلائل مکمل کیے۔
سماعت کے دوران وکیل عابد شعبان نے کہا کہ سینیٹ تجاویز دے سکتی ہے، لیکن ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سینیٹ نے 4 فیصد ٹیکس کی تجویز دی تھی جبکہ قومی اسمبلی نے 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قومی اسمبلی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تجاویز شامل کرے یا نہ کرے۔
اس کے بعد ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر نے دلائل شروع کیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے موکل انٹرنیٹ سروس فراہم کرتے ہیں اور کوشش کریں گے کہ دلائل دہرائے نہ جائیں۔
نعمان حیدر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فوجی فرٹیلائزر کیس میں کہا تھا کہ پاکستانی صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ وکیلوں کی فیس سے ایڈوانس ٹیکس کٹتا ہے اور پھر سپر ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سپر ٹیکس اپنی انکم سے ادا ہوتا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ تمام کٹوتیاں ہونے کے بعد سپر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس مظہر نے مزید پوچھا کہ کیا موکل نے فیس پوری ادا کی ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ٹیکس اہلکار غلط نہیں کر رہے۔
نعمان حیدر نے دلائل میں یہ بھی بتایا کہ بھارت میں 1961 کا ٹیکس قانون نافذ تھا، لیکن اب پاکستان نے اپنا موجودہ ماڈل اپنایا ہے۔ بھارت میں ٹیکس سال یکم اپریل سے شروع ہوتا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی، جس میں ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر دلائل جاری رکھیں گے۔








