آج کی تاریخ

سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی

تازہ ترین

سولر انرجی کے پیچھے چھپا خطرہ، پاکستان میں ماحولیاتی بحران کا خدشہ

لاہور: پاکستان میں توانائی کے بحران اور بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں نے شہریوں کو متبادل ذرائع توانائی کی طرف راغب کر دیا ہے، جس میں سب سے زیادہ رجحان سولر انرجی کی طرف ہے۔ گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب سے لے کر بڑے شمسی پارکس تک یہ شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، تاہم ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی، طوفانی بارشیں، سیلاب اور ناقص فضلہ مینجمنٹ اس نظام کو ماحولیاتی بحران میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طارق کے مطابق سولر پینلز پانی میں ڈوبنے پر سلیکون خلیات اور فریم ٹوٹ جاتے ہیں اور برقی کنکشن ناکارہ ہو سکتے ہیں جبکہ بیٹریاں شارٹ سرکٹ یا آگ کا سبب بن سکتی ہیں۔ لیڈ ایسڈ اور لیتھیم آئن بیٹریاں خراب ہونے پر زہریلے کیمیکلز مٹی اور زیر زمین پانی میں شامل کر کے سانس، جلد، گردے اور جگر کے امراض پیدا کر سکتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں لاکھوں سولر پینلز اور ہزاروں میگاواٹ گنجائش کی بیٹریاں درآمد کیں۔ چونکہ پینلز کی اوسط عمر 20 سے 25 سال اور بیٹریوں کی پانچ سے دس سال ہے، آئندہ برسوں میں ناکارہ ہونے سے کچرا کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری انتظامی ڈھانچہ نہ بنانے سے یہ بحران ای ویسٹ کی طرح شدید ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال تقریبا چار لاکھ ٹن برقی آلات کا کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں موبائل فون، کمپیوٹر اور فریج شامل ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، جہاں پرانا سامان غیر رسمی کباڑ بازاروں میں پہنچ کر غیر محفوظ طریقے سے تلف کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اربن مائننگ کے ذریعے پرانے آلات سے قیمتی دھاتیں محفوظ طریقے سے نکالی جا سکتی ہیں، جس سے معیشت کو فائدہ اور ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز نے بتایا کہ پاکستان میں ای ویسٹ مینجمنٹ کی جامع پالیسی موجود نہیں لیکن کام جاری ہے اور جلد مؤثر حکمت عملی متعارف کرائی جائے گی۔ سولر پینلز کے لیے نئے حفاظتی معیارات وضع کیے گئے ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق یہ ناکافی ہیں۔
سولر پینلز کے امپورٹر میاں عبدالخالق کے مطابق پاکستان کو فوری طور پر سولر ویسٹ مینجمنٹ پالیسی اور ری سائیکلنگ ڈھانچے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر یہ متبادل توانائی نظام اپنے ماحولیاتی فوائد کھو سکتا ہے۔ ماحولیاتی وکیل التمش سعید نے کہا کہ یورپی یونین اور جاپان میں ری سائیکلنگ قوانین سخت ہیں جبکہ پاکستان میں ضابطہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر سلمان طارق نے حکومت پر زور دیا کہ توسیعی ذمہ داری برائے سازندگان کے اصول کو اپنایا جائے تاکہ کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کے بعد از استعمال مرحلے کی ذمہ داری دی جا سکے، جس سے ماحول محفوظ ہوگا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں