ملتان(سٹاف رپورٹر) باوثوق ذرائع کے مطابق زکریا یونیورسٹی کے زیادتی کیس میں ملوث ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کی فرانزک رپورٹ میں ڈاکٹر شازیہ افضل سے زیادتی ثابت ہو گئی ہے۔ زکریا یونیورسٹی کے فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کی طرف سے اسی ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر اور اپنی سابق اہلیہ ڈاکٹر شازیہ افضل کے ساتھ مبینہ زیادتی اور ملزم کی گرفتاری کے بعد سے نت نئے انکشافات اور حقائق سامنے آرہے ہیں جن کی روشنی میں یہ معاملہ کھلتا جا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کی گروہی سیاست اس طرح کے اخلاقی معاملے میں بھی حقائق کو چھپاتے ہوئے اس شرمناک فعل کو الجھا رہی ہے۔ ضلع قصور کی تحصیل چونیاں سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ نے جب 2006 میں بی ایس فاریسٹری میں فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو مظفر گڑھ کے علاقے شاہ جمال کے رہائشی پروفیسر ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ اسی ڈیپارٹمنٹ میں فیصل آباد میں پڑھا رہے تھے۔ ڈاکٹر شازیہ کی ریسرچ اور تھیسز کے گائیڈ بھی پروفیسر ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ ہی تھے پھر بعد میں جب ڈاکٹر شازیہ افضل نے ایم فل میں داخلہ لیا تو بھی ان کے سپروائزر ڈاکٹر احسان قادر ہی مقرر ہوئے اور بعد میں ڈاکٹر شازیہ نے پی ایچ ڈی بھی وہیں سے کی۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں تعلیم کے دوران بطور استاد ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ، ڈاکٹر شازیہ کو خصوصی اہمیت دیتے اور ہر مرحلے میں مدد کرتے مگر ڈاکٹر شازیہ اور ان کے درمیان تب کسی بھی قسم کا قابل اعتراض تعلق نہ بن سکا کیونکہ ڈاکٹر احسان قادر شادی شدہ تھے اور ان کی سی ایس پی آفیسر اہلیہ عظمیٰ کا تعلق پنجابی فیملی سے تھا جبکہ ڈاکٹر بھابھہ سرائیکی تھے اور ان دونوں کی شادی شدہ زندگی ابتدائی سالوں میں اچھی چلتی رہی۔ اسی دوران ڈاکٹر شازیہ افضل کو سرگودھا یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی اور ان کی شادی بھی راجن پور میں تعینات ایک ڈاکٹر کے ساتھ ہو گئی جن کی فیملی لاہور میں مقیم تھی۔ ان کے ڈاکٹر شوہر راجن پور کے سرکاری ہسپتال میں انتظامی عہدے پر فائز تھے۔ سرگودھا اور راجن پور کی دوری ان دونوں کو آہستہ آہستہ دور کرتی گئی اور ڈاکٹر شازیہ افضل کوشش کرتی رہی کہ ان کے خاوند اپنا ٹرانسفر سرگودھا کروا لیں مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ ٹرانسفر کرانے پر آمادہ نہ تھے اور یونیورسٹی پروفیسر کی تو ٹرانسفر ہو ہی نہیں سکتی بلکہ کسی بھی دوسری یونیورسٹی میں نئی ملازمت مل سکتی ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی میں بھی ملازمت کے دوران ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کا ڈاکٹر شازیہ افضل سے رابطہ رہا اور وہ ان سے رہنمائی بھی لیتی رہیں۔ اس دوران ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ زرعی یونیورسٹی سے زکریا یونیورسٹی میں بہتر پوزیشن پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی زکریا یونیورسٹی میں وائس چانسلر تعینات ہوئے تو دونوں میں گہرے تعلقات بن گئے اور انہی تعلقات کے نتیجے میں زکریا یونیورسٹی کے احاطے میں لگے ہزاروں درخت بھی کٹ کر فروخت ہو گئے اور یونیورسٹی کی حدود میں پورا جنگل اجڑ گیا۔ ڈاکٹر شازیہ افضل کے شوہر سے سرگودھا تبادلے کے معاملے پر اختلافات بڑھتے گئے تو اس دوران ڈاکٹر بھابھہ بھی اپنے رابطے بڑھاتے رہے اور انہیں خاوند سے بدظن کرتے رہے۔ اسی دوران ڈاکٹر بھابھہ نے منصور اکبر کنڈی کی مشاورت سے زکریا یونیورسٹی کے فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ میں ون سٹیپ پروموشن پر ڈاکٹر شازیہ کو اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ میں نئی ملازمت دلوا دی تو دو بیٹوں کی ماں ڈاکٹر شازیہ سرگودھا سے ملتان شفٹ ہو گئی اور زکریا یونیورسٹی میں انٹرویو کے دوران اور پھر ملازمت حاصل کرنے کے تین ماہ بعد تک ڈاکٹر شازیہ ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کے گھر میں ہی ان کی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ رہی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر بھابھہ کی اہلیہ عظمیٰ، جن کا تعلق بہت ہی سلجھی ہوئی نفیس فیملی سے ہے ،نے بھی ڈاکٹر شازیہ افضل کا خیال رکھا مگر ڈاکٹر احسان قادر مسلسل ڈاکٹر شازیہ افضل کے کانوں میں اس کے خاوند کے خلاف زہر گھولتے رہے جس کا رزلٹ یہ نکلا کہ ڈاکٹر شازیہ افضل کے شوہر نے دونوں بچے چھین کر ان کو طلاق دے دی۔ عدت پوری ہونے کے بعد ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ نے 13 نومبر 2023 کو اپنے بھائی کی گواہی میں باقاعدہ ڈاکٹر شازیہ سے نکاح کر لیا اور اس نکاح کے ڈاکٹر شازیہ کی طرف سے گواہ اس کے والد اور بہنوئی تھے ۔ ڈاکٹر بھابھہ نے ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی سے کہہ کر ڈاکٹر شازیہ کو گرلز ہاسٹل میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بھی بنوا دیا۔ ڈاکٹر احسان قادر کی اہلیہ عظمیٰ کو جب 2023 میں ہونے والی اس باضابطہ شادی کا علم ہوا تو انہوں نے سخت ردعمل دیا اور گھر میں کہرام مچ گیا جس پر ڈاکٹر بھابھہ نے ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر شازیہ افضل کو اعتماد میں لے کر کہا کہ مجھ پر بہت دباؤ ہے اس لئے میں طلاق کے نقلی پیپر تیار کرکے اپنی پہلی اہلیہ کو مطمئن کرتا ہوں اور تھوڑے عرصے میں سب ٹھیک کر لوں گا اور اس بات کا انہوں نے قرآن پر حلف بھی دیا۔ ڈاکٹر شازیہ جو پہلے ہی طلاق یافتہ ہو چکی تھیں، دوسری مرتبہ طلاق کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی جس پر وہ خاموش ہو گئیں مگر ڈاکٹر احسان قادر نے 2 جون 2024 میں ہی اس طلاق کو سرکاری ریکارڈ میں موثر ظاہر کرتے ہوئے یونین کونسل سے رجسٹر کرا لی اور پھر پہلی بیوی عظمیٰ افضل کو اس کی کاپی دے دی مگر دوسری طرف بار بار اصرار کے باوجود ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ نہ تو ڈاکٹر شازیہ کو بیوی کا کھلے عام ٹائٹل دینے کو تیار تھے اور مسلسل جھوٹ بولتے رہے جس پر یونیورسٹی میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر شازیہ لوگوں کو ا پنے نکاح بارے بتاتی مگر ڈاکٹر بھابھہ ٹالتے رہے۔ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں کسی طرح یونین کونسل میں رجسٹرڈ طلاق نامے کو بذریعہ ڈاک کسی نے ڈاکٹر شازیہ کو بھجوا کر حقائق سے آگاہ کر دیا کہ ڈاکٹر بھابھہ 15 ماہ قبل آپ کو طلاق دینے کے باوجود آپ کے ساتھ میاں بیوی والا تعلق رکھتے ہوئے زنا کا ارتکاب خود بھی کر رہے ہیں اور آپ کو بھی گنہگار کر رہے ہیں جس پر 25 ستمبر 2025 کو ڈاکٹر شازیہ دن 11 بجے ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کے کمرے میں داخل ہوئیں اور وہاں بیٹھی ایک طالبہ کو باہر بھیج کر اندر سے کنڈی لگا لی پھر دونوں میں دست بدست لڑائی ہوئی جس سے ڈاکٹر شازیہ کے جسم پر زخموں کے متعدد نشانات پائےگئے۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا بھی ہوئے مگر اس روز ڈاکٹر بھابھہ نے ڈاکٹر شازیہ پر جنسی تشدد کیا اس کا ثبوت نہیں مل سکا تاہم جو حقائق سامنے آئے ہیں اور جن کی ڈاکٹر شازیہ کے ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ طلاق کے 15 ماہ بعد تک بھی ڈاکٹر بھابھہ نے ڈاکٹر شازیہ سے میاں بیوی والا تعلق بنائے رکھا جس کا فرانزک رپورٹ میں بھی پتہ چل گیا ہے۔








