نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک فرمان ہے’’جس میں حیا نہیں پھر وہ جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔ یہ تصویریں نہیں یہ معاشرے کے عمومی رویے پر زناٹے دار تازیانہ اور ہماری مجموعی اخلاقی پستی کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ پھر جب معاملہ ایک استاد کا ہو تو سنگینی کی نوعیت بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں اخلاقی گراوٹ اور اقدار کا زوال کس حد تک زوال آخرِ شب بن چکا ہے اس کا اندازہ ڈاکٹر احسان بھابھہ کی ضمانت کے بعد یونیورسٹی میں ان کی شاہانہ انٹری سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ موصوف بری نہیں، صرف ضمانت پر رہا ہوئے ہیں تو بے شرمی کی آخری حدیں پار کرتے اور اپنے حواریوں کے ہمراہ جشن مناتے ہوئے ہزاروں طالبات و خواتین اساتذہ کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہاں تعلیم کے سوا سب کچھ موجود ہے اور مہر بہ لب سینے ہی میں عافیت ہے۔
ہے کوئی جو ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ سے پوچھے کہ جناب سیاست دان نہیں استاد ہیں اور پھر جناب زنا کاری کے الزام میں جیل گئے تھے۔ اوپر سے یہ مقدمہ تو ابھی ختم بھی نہیں ہوا، آپ صرف ملتان پولیس کی روایتی سہولت کاری اور اپنی انتہائی معزز فیملی سے تعلق رکھنے والی پہلی اہلیہ کی مجبوری کے صدقے محض ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مقدمہ تو ابھی باقی ہے پھر یہ نعرے بازی اور استقبالکیسا۔
زکریا یونیورسٹی کے فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین یعنی آپ کے دفتر میں جو بدتمیزی اور بداخلاقی رپورٹ ہوئی، اس کے نشانات اور خراشیں جناب کے جسم پر بھی ہیں اور جناب کی درندگی کا شکار ڈاکٹر شازیہ افضل کے جسم پر بھی ہیں جن کی یونیورسٹی کی متعدد فی میل ٹیچرز گواہ ہیں کیونکہ وہ یہ نشانات دیکھ چکی ہیں۔
میں نے اپنی صحافتی زندگی میں اخلاقی مقدمات میں ملوث درجنوں ملزم ایسے دیکھے ہیں جو ضمانت پا کر یا بری ہو کر گھر آئے تو کئی کئی ماہ ندامت کی وجہ سے گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے تھے اور شرمندگی کے باعث کسی کو شکل نہیں دکھاتے تھے۔ بلکہ لاہور کے علاقے سعدی پارک کا حفیظ کن کٹا نامی ایک شخص جب اس قسم کے ایک مقدمے میں سزا مکمل کرکے گھر آیا تو دو سال تک اس نے گھر سے باہر قدم نہیں رکھا پھر جب اسے ہارٹ اٹیک ہوا تو اس کا جنازہ ہی گھر سے باہر نکلا۔ یہ 30 سال پرانی بات ہے ،شاید تب غیرت کا معیار بہتر ہوتا ہو گا۔ تاہم جناب ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ صاحب، ڈھٹائی کے اعتبار سے تو آپ کا کیس ہی مختلف ہے۔ جناب کے بارے جو گزشتہ چند دنوں میں سنا آپ کو اس سے کہیں بڑھ کر پایا۔ مجھے آپ سے کہیں زیادہ حیرت جناب کے گروپ اور اس مذہبی تنظیم پر ہے جو درس تو اخلاقیات کا دیتی ہے مگر پھولوں کے ہار بداخلاقی کے ملزم کے گلے میں ڈال کر اپنے قول و فعل کے تضاد پر ایک مرتبہ پھر مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔ یہ جو یونیورسٹی آفیسرز ایسوسی ایشن آپ کو پھول پیش کر رہی ہے انہیں بھی یقینی طور پر اخلاقی اقدار سے زیادہ اپنا ہم خیال گروہ ہی عزیز ہو گا اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ انہیں بھی فرمان نبویؐ یاد نہیں ہو گا جس کا میں نے اوپر حوالہ دیا۔ یہ گرم جوش اظہار یک جہتی یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ اور ملازمین کی عمومی اخلاقی سوچ کو بے نقاب کرتا ہے۔
ایک تصویر میں تو پرجوش استقبال کرنے والوں میں زکریا یونیورسٹی کے ایڈیشنل خزانچی صفدر لنگاہ، ایڈیشنل رجسٹرار کامران تصدق، ڈپٹی رجسٹرار طاہر ماڑھا ،آصف یاسین اور دیگر پروفیسر حضرات موجود ہیں جبکہ دوسری تصویر میں ننگانہ چوک ملتان کے تاجر اور زمیندار جن میں سراج بھروانہ اور سلیم شاہ وغیرہ شامل ہیں، پر جوش استقبال کر رہے ہیں۔
میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے وہ نام بھی مل سکیں چاہے ان میں فیمیل ٹیچرز ہی کیوں نہ ہوں کہ جنہوں نے پروفیسر ڈاکٹر شازیہ افضل کی بھی ڈھارس بندھائی ہو، انہیں کہا ہو کہ شاباش آپ ڈٹ گئی ہو، ہم آپکے ساتھ ہیں۔ مجھے تو عورت مارچ اور موم بتی مافیا بھی کہیں اظہار یکجہتی کرتا نظر نہیں آیا، ارے کوئی تو ان کے پاس جاتا؟ کوئی تو ہوتا جو ڈاکٹر شازیہ کی مدد کے لیے سامنے آتا۔ یہ واقعہ ملتان کی خواتین تنظیموں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی خاموشی پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ وہ آج آواز نہیں اٹھائیں گی تو یاد رہے کہ کل کو اسی طرح کے واقعات کسی بھی گھر کا رخ کر سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دوسرے کے گھر آگ لگی ہوئی ہو تو چھت پہ چڑھ کر تماشہ نہیں دیکھتے بلکہ مدد کرتے ہیں کہ کہیں وہ آگ پھیلتی پھیلتی اپنے گھر تک نہ آ جائے۔
حرفے چند: میاں غفار احمد، چیف ایڈیٹر روزنامہ قوم ملتان








