آج کی تاریخ

جامعات میں رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کی دھجیاں، معلومات، بد عنوانی، بے ضابطگیوں پر پردے

ملتان (سٹاف رپورٹر) ملک بھر کی متعدد سرکاری و نجی یونیورسٹیوں نے ’’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2010 (Right of Access to Information Act) ‘‘پر عمل درآمد سے غیر اعلانیہ انکار کرنا شروع کر دیا ہے جس کے باعث شفافیت، احتساب اور بدعنوانی کے خاتمے کے حکومتی دعوے سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مختلف شہریوں، صحافیوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے جامعات سے معلومات مانگنے پر اکثر اداروں نے مقررہ مدت کے اندر کوئی جواب نہیں دیاجبکہ چند ایک نے بے بنیاد، غلط، غیر واضح یا ادھوری معلومات فراہم کیں۔ کئی درخواستیں تاحال زیرِ التوا ہیںجن پر نہ کوئی کارروائی کی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی وضاحت فراہم کی جا رہی ہے۔ وفاقی’’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘‘کے تحت تمام سرکاری ادارے عوامی مفاد سے متعلق معلومات 10 تا 20 ورکنگ دن کے اندر فراہم کرنے کے حکومتی اعلانات کی حد تک پابند ہیں، تاہم یونیورسٹیوں میں اس قانون کی خلاف ورزی معمول بنتی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق بعض یونیورسٹیوں میں مالیاتی بے ضابطگیوں اور انتظامی بدعنوانی کے معاملات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کی ایک یونیورسٹی کی خاتون وائس چانسلر نے ایک فنکشن کے موقع پر بغیر سیریل کی ٹکٹیں فروخت کیں اور طالبات و فیکلٹی کو کوئی رسید بھی فراہم نہ کی گئی جس میں مبینہ طور پر سرکاری اکاؤنٹس میں ایک ٹیڈی پیسہ بھی نہ جمع کروایا گیا۔ اس بارے میں جب پی آر او سے بات کی گئی اور پوچھا گیا کہ اس فنکشن سے کتنی آمدن ہوئی اور کتنا خرچ ہوا نیز یونیورسٹی کے اکاؤنٹس میں کتنا پیسہ جمع ہوا تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ روزنامہ قوم کے اس یونیورسٹی کے ذرائع کے مطابق خاتون وائس چانسلر نے اپنی پی آر او کو کسی بھی قسم کا موقف دینے سے منع کر دیا ہے۔ ایک اور معلومات کے مطابق خاتون وائس چانسلر کا اپنے قریبی حلقوں میں کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے گورنر سے ملاقات میں بھی گورنر پنجاب نے ان کے کام کی تعریف کی اور جب انہوں نے گورنر پنجاب سے روزنامہ قوم کی خبروں کی بابت بات کی تو بقول ان کے، گورنر پنجاب نے ان کو ہدایت دی کہ آپ ان کو موقف نہ دیا کریں۔ اسی طرح ایک یونیورسٹی کی موصول ہونے والی انسپکشن رپورٹ کے مطابق لاکھوں روپے کے غیر شفاف اخراجات سامنے آئے ہیں، جبکہ اس یونیورسٹی کو یہی تصدیق شدہ ڈاکومنٹس رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے ڈیمانڈ کی گئی تو اس یونیورسٹی کی جانب سے بھی تصدیق شدہ ڈاکومنٹس فراہم نہیں کیے جا رہے۔ اسی طرح پنجاب کی ایک یونیورسٹی میں امتحانی کتابچوں کی خریداری میں ٹینڈر کے بغیر کروڑوں روپے کا ہیر پھیر کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معلومات نہ دینا اکثر اوقات بدعنوانی اور اقربا پروری کو چھپانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ طلبہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ جامعات کے مالیاتی و انتظامی فیصلوں میں شفافیت نہ ہونے سے نہ صرف تعلیمی معیار متاثر ہو رہا ہے بلکہ فیسوں، بھرتیوں اور ترقیوں میں بھی غیر مساوی سلوک کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ایک شہری نے بتایا کہ ’’ہم نے یونیورسٹی سے بجٹ اور فیسوں کی تفصیلات مانگیں، مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود جواب نہیں ملا۔ جب قانون کے تحت معلومات نہیں ملتیں تو احتساب کیسے ممکن ہوگا؟‘‘ ماہرِ قانون کا کہنا ہے کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 19-A عوام کو معلومات تک رسائی کا بنیادی حق دیتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ معلومات فراہم نہیں کرتا تو شہری متعلقہ انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کر سکتے ہیں۔ تاہم اکثر لوگ اس عمل سے ناواقف ہیں، جس کا فائدہ ادارے اٹھاتے ہیں۔ اس صورتحال کے حوالے سے وفاقی انفارمیشن کمیشن کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں کو متعدد بار یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ ’’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘‘پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائیں۔ انہوں نے بتایا کہ کئی کیسز زیرِ سماعت ہیں اور عدم تعاون کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر تعلیمی ادارے ہی شفافیت اور قانون پر عمل درآمد سے گریز کریں گے تو عوامی اعتماد بحال نہیں ہو سکتا کیونکہ شفافیت صرف نعرہ نہیں بلکہ عوام کا آئینی حق ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں