ملتان (قوم ایجوکیشن انویسٹیگیشن سیل) زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ جنگلات کے سربراہ ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ پر اسی ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شازیہ افضل کی جانب سے ڈیپارٹمنٹ کی حدود میں جبری زیادتی کے واقعہ اور اس حوالے سے دی گئی درخواست اور اس درخواست کے نتیجے میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں تضادات کی بھرمار ہے اور متعدد سوالات ان تمام تر الزامات کو مشکوک بنا رہے ہیں ۔ مروجہ طریقہ کار یہ ہے کہ مدعی یا مدعیہ کی درخواست میں رد و بدل نہیں کیا جاتا اور اگر درخواست انگریزی میں بھی ہو تو ایف آئی آر میں اس درخواست کو اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کا ترجمہ یا مفہوم نہیں لکھا جاتا۔ عالمی دباؤ پر سرنگوں کرتے ہوئے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے جبری طور پر جو قانون منظور کروایا اس قانون کی آڑ میں گزشتہ 23 سالوں میں جہاں لاکھوں پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں وہاں لاکھوں گھر اور زندگیاں برباد ہو چکی ہیں اور معاشرے کو تباہ کرتا ہوا یہ قانون پولیس کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے کہ پولیس اس قانون کی آڑ میں بلا تحقیق فوری مقدمات درج کر کے ملک بھر میں دھڑا دھڑ ذلت کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہی ہے۔ حدود کے اس حالیہ مقدمے کے حوالے سے درجنوں سوالات پیدا ہو رہے ہیں جو اس ساری کہانی کو مشکوک بنا رہے ہیں کیونکہ درخواست کے سیاق و سباق اور مضمون جبکہ ایف آئی آر کے الفاظ میں زمین آسمان کا فرق ہے اور ایف آئی آر میں بعض ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو سوائے کاریگر پولیس افسروں کے کوئی استعمال نہیں کرتا۔ 1۔ یہ وقوعہ 25 ستمبر 2025 کا بنایا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر شازیہ جنہیں وقوعہ کے فوراً بعد شدید رد عمل دینا چاہیے تھا اور ایکشن کروانا چاہیے تھا وہ 6 دن تک کیوں خاموش رہیں اور 6 دن بعد اچانک ان کے ضمیر کو کروٹ کیسے ملی اور کس نے دلوائی۔ 2۔ خاتون پروفیسر 25 تاریخ کے زنا کے واقعے کے حوالے سے ایس ایچ او کے نام اپنی درخواست میں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اس وقت کمرے میں ایک اور طالبہ موجود تھیں جنہیں انہوں نے یعنی خود ڈاکٹر شازیہ نے کمرے سے باہر جانے کے لیے کہا اور اس سلسلے میں اپنی انگریزی میں ایس ایچ او کے نام لکھی گئی درخواست میں جو جملہ لکھا وہ کچھ اس طرح سے ہے “I politely requested her to step out of the officeیہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں یعنی ڈاکٹر شازیہ نے از خود درخواست کر کے اس طالبہ کو باہر کیوں بھیجا۔ 3۔ یہ واقعہ جمعرات دن 11 بجے بتایا جاتا ہے جو کہ بھرپور ورکنگ ڈے ہے اور اس وقت ڈیپارٹمنٹ میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے ۔ اگر اس وقت مبینہ مشکوک زبردستی ہوئی تو اس کا شور کیوں نہ مچا اور کسی نے آواز کیوں نہ سنی اور ڈاکٹر شازیہ نے اسی وقت کسی کو مدد کے لیے کیوں نہ پکارا۔ اور پھر اگر مبینہ طور پر ان کے ساتھ زیادتی کا یہ مشکوک واقعہ ان کے سابقہ شوہر کی جانب سے ہو ہی چکا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ 37 سال کی ایک بھرپور جوان عورت اپنے سے 20 سال بڑے ڈھلتی عمر کے شخص کا مقابلہ نہ کر سکے۔ 4۔ اس مبینہ اور مشکوک زیادتی کے بعد جب ڈاکٹر شازیہ کمرے سے باہر آتی ہیں تو ان کے بے ربط لباس اور پریشان حالت کا کوئی موقع کا گواہ تو ہوتا ۔ کوئی تو نوٹس لیتا۔ 5۔ ڈاکٹر شازیہ کی شادی سال 2023 کے وسط میں اس کے والد کی گواہی میں نکاح چونیاں میں ان کے آبائی گھر میں ہوتا ہے کیونکہ ڈاکٹر شازیہ کا تعلق چونیاں سے ہے اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے احسان قادر بھابھہ خصوصی طور پر نکاح کے لیے چونیاں جاتے ہیں۔ جہاں با ضابطہ نکاح پڑھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ ان کی اہلیہ بن کر واپس ملتان آتی ہیں اور اس شادی کا ڈیپارٹمنٹ کے بہت سے لوگوں کو علم ہوتا ہے کیونکہ دونوں کی ہی یہ دوسری شادی تھی اور ڈاکٹر شازیہ تو طلاق یافتہ تھیں البتہ ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ نہ صرف پہلے سے شادی شدہ بلکہ ایک سی ایس پی آفیسر کے خاوند ہیں۔ 6۔ ڈاکٹر شازیہ کو 6 دن تک نہ تو کوئی گواہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا شخص جس سے یہ بات کر سکیں پھر اچانک انہیں 2 گواہ مہیا کر دیے جاتے ہیں جن میں ایک گواہ ڈپٹی رجسٹرار لیگل محی الدین ہیں جو کہ موقع پر موجود پی نہ تھے اور وہ سنی سنائی کہانی کی بنیاد پر 6 دن بعد گواہ بن گئے۔ جبکہ دوسرا گواہ ڈاکٹر وقاص کو بنایا گیا جن کا بھی اس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق نہیں گویا ڈاکٹر شازیہ کو مشکوک سچائی کا ساتھ دینے کے لیے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے ایک بھی بندہ نہ ملا۔ 7۔ ایس ایچ او کے نام لکھی گئی درخواست میں کسی گواہ کا ذکر نہیں اور پولیس کو بھی اطلاع 6 دن بعد ہی دی جاتی ہے۔ 8۔ ڈاکٹر شازیہ جو کہ سرگودھا یونیورسٹی میں ایک جونیئر لیکچرار تھیں کو خصوصی طور پر ملتان لا کر اسسٹنٹ پروفیسر بنوانے والے بھی ان کے شوہر (سابقہ یا موجودہ) ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ ہی تھے۔ 9۔ ڈاکٹر شازیہ کا 6 دن تک خاموش رہنا اس سارے واقعے پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ فوری رد عمل میں تو کوئی چیز سامنے نہیں آتی اور وقت کے ساتھ ساتھ تو غصہ کم ہوتا جاتا ہے تو پھر 6 دن بعد ڈاکٹر شازیہ کو کس نے اس کارروائی کی طرف راغب کیا۔ 10۔ اپنی انگریزی میں لکھی گئی ایس ایچ او کے نام درخواست میں ڈاکٹر شازیہ یہ موقف بیان کرتی ہیں جو کہ انگلش میں کچھ اس طرح سے ہے۔ During this incident, the chairman dr. Ehsan subjected me to rape , issued threats and escalated the matter by physically assaulting me, slapping me on the face and body and violently pulling my hair. جس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے اس واقعے کے دوران چیئرمین ڈاکٹر احسان نے مجھ سے جنسی زیادتی کی، دھمکیاں دیں اور معاملے کو مزید بڑھاتے ہوئے مجھ پر جسمانی حملہ کیا، میرے چہرے اور جسم پر تھپڑ مارے اور بالوں کو بے دردی سے نوچا۔اور دوسری جگہ یہ لکھتی ہیں Immediately after that، he physically attacked me in a completely unprovoked and violent manner.جبکہ اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے اس کے فوراً بعد، اُس نے بلا اشتعال اور انتہائی پرتشدد انداز میں مجھ پر جسمانی حملہ کیا۔دوسری طرف ڈاکٹر شازیہ کی مدعیت میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں شلوار پوشیدہ کا ذکر ہے جس کا ترجمہ underwear کے طور پر کیا جاتا ہے اور یہ لفظ درخواست میں موجود ہی نہیں ہے۔ اور یہ ایک مخصوص لفظ ہے جو کہ بہت ہی کم تعلیم یافتہ نچلے درجے کے پولیس اہلکار استعمال کرتے ہیں اور پولیس کا یہ مخصوص لفظ ہے۔ اور الٹا اس لفظ سے ڈاکٹر شازیہ کی بھی عزت عمومی طور پر پورے معاشرے اور خصوصی طور پر اپنے طلباء و طالبات میں خراب ہوئی ہے۔ 11۔ روزنامہ قوم نے فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ کے متعدد حالیہ اور سابقہ طلباء و طالبات سے جو معلومات لیں تو 100 فیصد طلباء و طالبات نے ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کو اعلیٰ پائے کا با عزت، با حیا ، دیانتدار اور باپ کی طرح شفقت کرنے والا قرار دیا جبکہ دوسری طرف ڈاکٹر شازیہ کے بارے میں یہ کہا کہ وہ کسی وقت شدید غصہ کرتے ہوئے نا قابل برداشت رد عمل دیتی ہیں اور مبینہ طور پر یہ بھی معلومات سامنے آئی ہیں کہ وہ نفسیاتی معالج سے علاج بھی کرواتی رہی ہیں اور اس سلسلے میں یونیورسٹی کی اسی ڈیپارٹمنٹ کی ایک سابقہ طالبہ نے کہا کہ ڈاکٹر شازیہ بیچاری کی شادی 2 بار ناکام ہو چکی ہے اور وہ اپنے بچے بھی خود پالتی ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں نارمل رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور ڈ پریشن کا غلبہ آ ہی جاتا ہے۔یہاں براہ راست سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا کہ ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کامران خان ، آر پی او ملتان سہیل چوہدری اور سی پی او ملتان محمد صادق ڈوگر اس کیس کے حوالے سے تھانہ ڈی ایچ اے و سرکل افسران سے ان اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں کیا کوئی پوچھ گچھ کریں گے۔








