آج کی تاریخ

بہاولپور: اسلحہ ڈکیٹی کا سراغ نہ ملا، مجرموں کو سپلائی جاری، پولیس کارکردگی سوالیہ نشان

بہاولپور (ڈسٹرکٹ رپورٹر) بہاولپور پولیس کی سٹی سرکل میں کمزور گرفت کی وجہ سے تھانہ کوتوالی کی حدود میں واقع النور پلازہ کی اسلحہ دکان میں ہونے والی ڈکیتی کو چار ماہ بیت چکے ہیں، مگر تاحال بہاولپور پولیس نہ ملزمان کو گرفتار کر سکی ہے اور نہ ہی لوٹا گیا اسلحہ برآمد کیا جا سکا ہے۔ پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ذرائع کے مطابق، مذکورہ ڈکیتی کے مدعی محمد سعید اور اس کا بیٹا ذیشان عرف شانی گجر طویل عرصے سے بہاولپور میں ناجائز اسلحے کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ شانی گجر کے مبینہ روابط بہاولپور اور لودھراں کے متعدد جرائم پیشہ عناصر سے ہیں جنہیں غیر قانونی اسلحہ سپلائی کیا جاتا رہا ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ مذکورہ دکان نہ تو ضلعی حکومت سے منظور شدہ تھی اور نہ ہی اس کا اسلحہ برانچ میں کوئی اندراج موجود تھا۔سابقہ انچارج اسلحہ برانچ غلام محمد جی ایم کی سرپرستی میں کئی نام نہاد ڈیلرز مبینہ طور پر بغیر قانونی اجازت نامے کے اسلحے کا دھندہ کرتے رہے۔ روزنامہ قوم کی نشاندہی پر سیکرٹری داخلہ پنجاب نور الامین مینگل کے احکامات پر ڈپٹی کمشنر نے انچارج اسلحہ برانچ کو معزول کیا، جبکہ تھانہ کوتوالی کے ایس ایچ او اسلم ڈھڈی نے بھاری مالی لین دین کے بعد بغیر ایس او پیز کے اسلحہ کی دوکان اور لائسنس چیک کیے بغیر مقدمہ درج کیا۔حیرت انگیز طور پر واردات کے بعد دکان کے تالے سالم پائے گئے اور سخت ایس او پیز کے باوجود اتنی بڑی مقدار میں اسلحے کی چوری کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ روزنامہ قوم کی رپورٹنگ کے بعد ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کے حکم پر ایک سپیشل ٹیم نے بھی تحقیقات شروع کیں، مگر شانی گجر کی سی ڈی آر میں جرائم پیشہ افراد سے روابط سامنے آنے کے باوجود اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس کو’’روزی روٹی‘‘ کا ذریعہ بناتے ہوئے بعض جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر کے بھاری رقوم کے عوض چھوڑ دیا گیا، جبکہ اسلحہ آج بھی تک نہیں ملا ہے۔ مذکورہ دکان کے مالکان سعید اور شانی گجر فرضی واردات کے بعد سے دوکان چھوڑ کر غائب ہیں۔روزنامہ قوم کی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق اگر ڈی پی او بہاولپور حسن اقبال یا ریجنل سی سی ڈی افسر شفقت عطا اس مقدمہ نمبر 21/25 تھانہ کوتوالی کے ریکارڈ اور شانی گجر کی سی ڈی آر کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو متعدد وارداتوں میں ملوث مجرمان کو باآسانی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے تعینات ہونے والے افسران اس سنگین معاملے میں سنجیدہ اقدامات کرتے ہیں یا یہ مقدمہ بھی فائلوں کی نذر ہو جائے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں