اوچشریف (کرائم سیل) طالبہ اقرا شفیق، اس کی والدہ، چچی اور پھوپھو سمیت پورے خاندان پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ ون فائیو کی کال پر پہنچنے پر محمد شفیق نے پولیس کانسٹیبل پر ڈنڈا مار کر جان سے مارنے کی کوشش کی جو کہ جھوٹا نکلا تاہم بعد ازاں محمد شفیق کے خلاف پیش کیا گیا ’’کریمنل ریکارڈ‘‘ بھی فرضی نکلا ان تمام تر ناکامیوں کے بعد پولیس اور بااثر قبضہ مافیا خواجہ مرید حسین اس کے داماد خواجہ نثار علی صدیقی و میڈیکل آفیسر کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا۔ متاثرہ خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے میڈیکل آفیسر کے ساتھ مل کر ’’میڈیکل مینج‘‘ کیا، جسے اب میڈیکل بورڈ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔میڈیکل رپورٹ میں سنگین بے ضابطگیوں پر روزنامہ قوم نے14 سوالات اٹھا دئیے ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا آج میڈیکل بورڈ کے ڈاکٹروں کی اہم ذمہ داری ہے 1۔ میڈیکل آفیسر نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ مضروب پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تھا اور اسے 15 پر کال موصول ہوئی۔ سیکرٹری ہیلتھ کے نوٹیفکیشن نمبر 293-400 مورخہ 21-1-2012کے مطابق اس نوعیت کے واقعات میں سنگل ڈاکٹر معائنہ نہیں کر سکتا بلکہ بورڈ ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے یہ رپورٹ میڈیکو لیگل ڈاکٹر کے دائرہ اختیار سے باہر تھی مگر میڈیکل آفیسر نے میڈیکل رپورٹ کیسے جاری کر دی۔2۔ زخم نمبر دو میں لکھا گیا کہ مضروب کے سامنے والے دو دانت موجود نہیں مگر ہونٹ، مسوڑھوں یا کسی دوسرے دانت پر چوٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی چوٹ موجود ہی نہ تھی پھر بھی اس کو زخم نمبر دو شمار کیا گیا۔3۔ پولیس کے ’’نقشہ مضروبی‘‘ میں بھی دانت ٹوٹنے کے علاوہ کسی قسم کی سوجن یا زخم درج نہیں۔4۔ میڈیکل رپورٹ میں ڈینٹل سرجن کی رائے لینے کا ذکر تو ہے مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس ہسپتال یا سرجن سے رائے درکار ہے۔5۔ دانتوں کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ اوپر کے تھے یا نیچے کے، بائیں طرف کے یا دائیں طرف کے۔6۔ Nature of Injury کے کالم میں صرف لفظ Laceration درج کیا گیا، جب کہ قصاص و دیت آرڈیننس کے مطابق زخم کی نوعیت تفصیل سے لکھنالازمی ہے۔7۔Fabrication کا کالم خالی چھوڑ دیا گیا، جبکہ ضروری تھا کہ اس میں ’’یس‘‘ یا ’’نو‘‘ لکھا جاتا۔8۔شناختی کارڈ اور پتہ والا کالم بھی خالی چھوڑ دیا گیا، حالانکہ میڈیکل لیگل فارم کے تمام کالم پُر کرنا لازمی ہے۔9۔ زخم نمبر ایک کو قصاص و دیت آرڈیننس کے مطابق ’’شجاع موضّحہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر نے وہی دفعات بھی درج کیں جو پولیس نے ایف آئی آر میں لگائی تھیں، جو کہ اصولاً ممنوع ہے اور ڈاکٹر کی جانبداری کو ظاہر کرتا ہے۔10۔ زخم نمبر دو کے حوالے سے ڈینٹل سرجن کی رائے لازمی قرار دی گئی مگر رپورٹ میں شامل نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود دانتوں کو ’’اتلافِ صلاحیتِ عضو‘‘ ڈیکلیئر کر دیا گیا، جب کہ نہ چوٹ، نہ سوجن اور نہ خون آنے کا کوئی ذکر ہے۔11۔ بعد ازاں جاری ہونے والی ڈینٹل سرجن کی علیحدہ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ مضروب کے سامنے والے دانت مصنوعی تھے اور مصنوعی دانتوں پر قصاص و دیت آرڈیننس کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔12۔ ڈینٹل سرجن کی رپورٹ میں بھی کسی قسم کی چوٹ، سوجن، جھریٹ یا بلیڈنگ کا ذکر موجود نہیں۔13۔ ایک دانت کے بارے میں صرف یہ لکھا گیا کہ وہ چپ آف ہے اور علاج کی ضرورت ہے، مگر کسی چوٹ یا مسوڑھوں کی انجری کا ذکر نہیں۔ اس کے باوجود اسے ’’اتلاف صلاحیتِ عضو‘‘ قرار دینا سراسر زیادتی ہے۔14۔ ایف آئی آر میں ملزموں پر دفعہ 324 لگائی گئی، لیکن میڈیکل رپورٹ میں اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ رپورٹ کے مطابق مضروب مکمل ہوش و حواس میں تھا، اس کے وائٹلز نارمل تھے اور اس نے اپنے انگوٹھے سے رپورٹ پر تصدیق بھی کی۔ نہ اسے اسپتال میں داخل کیا گیا، نہ کہیں ریفر کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔متاثرہ خاندان نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے جھوٹی ایف آئی آر کے ذریعے طالبہ اقراء شفیق اور اس کے اہل خانہ کو دہشت گردی کے مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے میڈیکل رپورٹ میں ردو بدل کیا گیا۔ ان کے مطابق یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے، اور اب وہ معاملے کو میڈیکل بورڈ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔اوچ شریف کے مقامی ذرائع کے مطابق اب بھی خواجہ مرید حسین اور اس کا داماد سابقہ ایس ایچ او کے ساتھ مل کر سیلاب کے دنوں میں انتظامیہ کے مصروف ہونے کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ اس قیمتی اراضی پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔









