آج کی تاریخ

یونیورسٹیوں میں تدریسی وغیر تدریسی عملے کا تناسب معیار سے متجاوز،مالی بحران، سیاسی بھرتیوں میں اضافہ

ملتان(تحقیقاتی رپورٹ:میاں غفار احمد) ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کے ریگولیٹر کے حیثیت سے ملک بھر کی سرکاری جامعات میں اکیڈمک اور نان اکیڈمک سٹاف کا تناسب 1:1.5 سے طے کر دیا ہے۔ جبکہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں یہ تناسب غیر معمولی حد تک زیادہ ہو گیا ہے جس سے متعدد یونیورسٹیوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق وہ یونیورسٹیاں جو اس سے تجاوز کر چکی ہیں انہیں مزید غیر تدریسی عملے کی خدمات حاصل کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ صرف مخصوص حالات میں صرف اور صرف سنڈیکیٹ اور سینٹ کی خصوصی اجازت سے ان تعیناتیوں میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر کیس کی سماعت کے دوران سابقہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک یونیورسٹی میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کا تناسب 1:6 (یعنی ایک استاد اور 6 نان ٹیچنگ سٹاف) سے زیادہ ہونے پر بہت زیادہ حیران ہوئے اور انہوں نے نہایت ہی افسوس کا اظہار کیا کہ غیر ضروری بھرتیاں کرکے جامعات کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے انہوں نے بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک میں پروفیسر حضرات چائے بھی خود بنا کر پیتے ہیں مگر یہاں شاہی سسٹم کی وجہ سے ایک ایک آفس میں 10، 10 غیر تدریسی افراد تعینات ہیں اور افسران کے گھروں میں بھی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ اسی کیس کی سماعت کے دوران ملتان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی برطرفی کے دوران اس یونیورسٹی میں ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کا تناسب 1:3 سے زائد تھا جس پر سپریم کورٹ اف پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس نے نہایت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام جامعات کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ 1:1.5 (یعنی ایک ٹیچر اور ایک اعشاریہ پانچ نان ٹیچنگ ملازم) تک لے جانے کی ہدایات کیں۔ اسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی برطرفی کے بعد نئے انے والے وائس چانسلر نے سپریم کورٹ کی ہدایات کے عین مطابق پچھلے برطرف ہونے والے وائس چانسلر کی طرف سے تمام سیاسی طور پر تعینات کردہ غیر تدریسی عملے کا کنٹریکٹ ختم ہوتے ہی ان کے کنٹریکٹ کی تجدید نہ کی۔ جس سے اس یونیورسٹی کا تدریسی اور غیر تدریسی عملے کا تناسب کم ہو کر تقریبا 1:2 تک آ گیا جس سے اس جامعہ کو تقریبا ایک کروڑ ماہانہ کی بچت ہوئی مگر یہ سپریم کورٹ کی طے شدہ شرح سے اب بھی اعشاریہ 5 فیصد زیادہ ہے۔ اس بارے میں جب ملک کی مختلف جامعات سے ان کی یونیورسٹیوں میں تدریسی و غیر تدریسی عملے کا تناسب پوچھا گیا تو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے پی آر او ڈاکٹر بنیامین کے مطابق ٹیچنگ سٹاف کی تعداد 620 جبکہ انہوں نے نان ٹیچنگ سٹاف کی تعداد بتانے سے انکار کیا چنانچہ غیر سرکاری معلومات کے مطابق نان ٹیچنگ سٹاف بمعہ آؤٹ سورس ملازمین کی تعداد تقریبا 3500 ہے جس سے یہ تناسب تقریباً 5.64 یعنی ایک ٹیچر کے مقابلے میں 5 اعشاریہ 64 نان ٹیچنگ ملازم جو کہ یونیورسٹی کی بربادی کا سامان ہے۔ ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے پی آر او ڈاکٹر نعیم نے بھی ٹیچنگ، نان ٹیچنگ ، آوٹ سورس اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ملازمین کی تعداد بتانے سے گریز کیا، چنانچہ غیر سرکاری معلومات کے مطابق ٹیچنگ سٹاف کی تعداد 80 جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف بمعہ آوٹ سورس ملازمین کی تعداد تقریبا 200 ہے جس سے یہ تناسب تقریباً 1:2.5 یعنی ایک ٹیچر کے مقابلے میں ڈھائی نان ٹیچنگ ملازمین۔ محمد نواز شریف یونیورسٹی اف ایگریکلچر ملتان کے پی آر او ڈاکٹر عبد القیوم کے مطابق ٹیچنگ سٹاف کی تعداد 150جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف بمعہ آوٹ سورس ملازمین کی تعداد تقریبا 340 ہے جس سے یہ تناسب تقریباً 2.26 ہے۔ محمد نواز شریف یونیورسٹی اف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے رجسٹرار ڈاکٹر عاصم عمر کی جانب سے جواب نہ آنے کی صورت میں غیر سرکاری معلومات کے مطابق ٹیچنگ سٹاف کی تعداد 45 جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف بمعہ آوٹ سورس ملازمین کی تعداد تقریبا 100 ہے جس سے یہ تناسب تقریباً 2.22 ہے۔ خواتین یونیورسٹی ملتان کی پی آر او مس انعم کے معلومات نہ دینے کے بعد غیر سرکاری معلومات کے مطابق ٹیچنگ سٹاف کی تعداد 190 جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف بمعہ آوٹ سورس ملازمین کی تعداد تقریبا 360 ہے جس سے یہ تناسب تقریباً ایک ٹیچر کے مقابلے میں 1.9 نان ٹیچنگ ملازمین ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پی آر او شہزاد خالد کے مطابق ٹیچنگ سٹاف کی تعداد 1320 جبکہ غیر سرکاری معلومات کے مطابق نان ٹیچنگ سٹاف بمعہ آوٹ سورس ملازمین کی تعداد تقریبا 3505 ہے جس سے یہ تناسب تقریباً 2.65 ہے۔ کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد ساہیوال کیمپس کے ڈپٹی رجسٹرار رانا عدیل عباد نے یہ معلومات دینے سے گریز کیا۔ جبکہ غیر سرکاری معلومات کے مطابق ٹیچنگ سٹاف کی تعداد 170 جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف بمعہ آوٹ سورس ملازمین کی تعداد تقریبا 385 ہے جس سے یہ تناسب تقریباً 2.26 ہے۔سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق یہ معلومات پبلک کرنے کے حوالے سے صرف اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور محمد نواز شریف یونیورسٹی اف ایگریکلچر ملتان سر فہرست رہیں۔ جبکہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ایمرسن یونیورسٹی ملتان، خواتین یونیورسٹی ملتان، کامسیٹس یونیورسٹی ساہیوال کیمپس اور محمد نواز شریف یونیورسٹی اف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان نے اپنی ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی تعداد بتانے سے گریز کیا جس سے کافی شکوک وشبہات پیدا ہوئے۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر کے مطابق لوئر سٹاف کی دھڑا دھڑ بھرتی کی بنیادی وجہ سیاسی بھرتیاں ہیں چونکہ عام طور پر جو ہمارے ملک کے اندر ان سکلڈ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور پہلے تو میٹرک بھی ضروری نہیں ہوتا تھا مگر اب کم ازکم میٹرک ایف اے یا بی اے لوگ سب سے زیادہ ہیں اور یہی لوگ سیاست دانوں کے ڈیروں پہ بیٹھ جاتے ہیں اور ان سے سیاسی بھرتیاں بہت زیادہ کی گئی ہیں اور وہ اسی لیول کی ہوتی ہیں، دوسری بات ہمارے ہاں گورنمنٹ جاب کو لوگ اس لیے بھی ترجیح دیتے ہیں کہ جاب سکیورٹی ہوتی ہے اور پینشن اور بہت سے دوسرے مفادات ہوتے ہیں اور زیادہ تر افراد گورنمنٹ جاب حاصل کرنے کے بعد کام کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا سرے سے کرتے ہی نہیں ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ افراد ڈیلی یا کنٹریکٹ پر تو ٹھیک کام کرتے ہیں لیکن مستقل تعیناتی کے بعد کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر نتیجتاً ایک ڈیپارٹمنٹ میں یعنی چار پانچ لوگوں سے کام چل سکتا ہے وہاں پہ 10 لوگ رکھے ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ کام مکمل نہیں کرتے تو مختلف کاموں کے لیے تھوڑے افراد بھرتی کرنے کی بجائے ہر کام کے لیے الگ فرد کو بھرتی کرنا پڑتا ہے۔اور یہ مکمل طور پر مس مینجمنٹ ہے جس کی وجہ سے یہ ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف کا تناسب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ 1:1.5 سے بڑھ کر بعض یونیورسٹیوں میں خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے جو یونیورسٹیوں کو شدید مالی بحران کی طرف لے جا چکا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں