اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی مبینہ گمشدگی کا معاملہ نیا رخ اختیار کرگیا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران حیران کن انکشافات سامنے آگئے۔
تفصیلات کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج ہے، ان کی گرفتاری، جسمانی ریمانڈ اور بیانِ 161 مکمل ہوچکا ہے۔
پولیس کے مطابق عثمان نے اپنے تحریری بیان میں اعتراف کیا کہ وہ خود انکوائری کے باعث روپوش تھا، اور اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔
درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 روز تک غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، بعد میں ایف آئی آر درج کرکے لاہور منتقل کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے مؤکل کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا تھا، اور اس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ “اگر عثمان واقعی مجرم تھا تو اسے اغوا کیوں کیا گیا؟” اور الزام لگایا کہ اُس سے پہلے خالی کاغذ پر دستخط کروائے گئے اور بعد میں اس پر بیان تحریر کیا گیا۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ عثمان کے خلاف انکوائری جاری ہے، اس لیے بازیابی کی درخواست نمٹا دی جائے۔
عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔








